چھینک ، جماہی کے مسائل
(۱)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا عَطَسَ غَطَّی وَجْہَہُ بِیَدِہِ أَوْ ثَوْبِہِ وَغَضَّ بِہَا صَوْتَہُ‘‘۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو جب چھینک آتی تو منہ کو ہاتھ یا کپڑے سے چھپالیتے اور آواز کو پست کرتے ۔ (ترمذی)
(۲)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ وَلْیَقُلْ لَہُ أَخُوہُ أَوْ صَاحِبُہُ یَرْحَمُکَ اللَّہُ فَإِذَا قَالَ لَہُ یَرْحَمُکَ اللَّہُ فَلْیَقُلْ یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ‘‘۔ (2)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایاکہ جب کسی کو چھینک آئے تو اَلْحَمْدُ لِلَّہِ کہے اور اس کا بھائی یا ساتھ والا یَرْحَمُکَ اللَّہُکہے جب یَرْحَمُکَ اللَّہُکہہ لے تو چھینکنے والا اس کے جواب میں یہ کہے یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔ (بخاری)
(۳)’’ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا تَثَائَ بَ أَحَدُکُمْ فَلْیُمْسِکْ بِیَدِہِ عَلَی فَمِہِ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَدْخُلُ‘‘۔ (3)
حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جب کسی کو جماہی آئے تو اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے کیونکہ شیطان منہ میں گھس جاتا ہے ۔ (مسلم شریف)
انتباہ :
(۱)… انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام جماہی سے محفوظ ہیں اس لیے کہ اس میں شیطانی مداخلت ہے اس کے روکنے کی بہتر ترکیب یہ ہے کہ جب جماہی آنے والی ہو تو دل میں خیال کرے کہ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام
اس سے محفوظ ہیں۔ فوراً رُک جائے گی۔ (1) (بہار شریعت، شامی، جلد اول ص ۳۳۶)
(۲)…اگر چھینکنے والا اَلحَمْدُ ﷲِ کہے تو سننے والے پر فوراً اس طرح جواب دینا واجب ہے کہ وہ سُن لے ۔
(۳)…بعض لوگ چھینک کو بدفالی خیال کرتے ہیں مثلاً کسی کام کے لیے جارہا ہے اور کسی کو چھینک آگئی تو سمجھتے ہیں وہ کام انجام نہیں پائے گا۔ یہ جہالت ہے اس لیے کہ بدفالی کوئی چیز نہیں بلکہ ایسے موقع پر چھینک آنا اور اس پر ذکر الہٰی کرنا نیک فالی ہے ۔
٭…٭…٭…٭
________________________________
1 – ’’بہارِ شریعت ‘‘، ج۱، ص ۶۲۷، ’’رد المحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۴۹۸.