اعمال

بغض و حسد نیکیاں برباد کرتے ہیں

بغض و حسد نیکیاں برباد کرتے ہیں

(۱)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُعْرَضُ أَعْمَالُ النَّاسِ فِی کُلِّ جُمُعَۃٍ مَرَّتَیْنِ یَوْمَ الاثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیسِ فَیُغْفَرُ لِکُلِّ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ إِلَّا عَبْدًا بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَخِیہِ شَحْنَائُ فَیُقَالُ اتْرُکُوْا ہَذَیْنِ حَتَّی یَفِیْئَا‘‘۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ بندوں کے اعمال ہر ہفتہ دو مرتبہ پیش کیے جاتے ہیں۔ پیر اور جمعرات کو ، پس ہر بندہ کی مغفرت ہوتی ہے سوا اس بندہ کے جو اپنے کسی مسلمان بھائی سے بغض و کینہ رکھتا ہے اس کے متعلق حکم دیا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑے رہو (یعنی فرشتے ان کے گناہوں کو نہ مٹائیں) یہاں تک کہ وہ آپس کی عداوت سے باز آجائیں۔ (مسلم شریف)
(۲)’’عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَحِلُّ لِمُؤْمِنٍ أَنْ یَہْجُرَ مُؤْمِنًا فَوْقَ ثَلاثٍ فَإِنْ مَرَّتْ بِہِ ثَلاثٌ فَلْیَلْقَہُ فَلْیُسَلِّمْ عَلَیْہِ فَإِنْ رَدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ فَقَدِ اشْتَرَکَا فِی الْأَجْرِ وَإِنْ لَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ فَقَدْ بَاء بِالْإِثْمِ وَخَرَجَ الْمُسَلِّمُ مِنَ الْہِجْرَۃِ‘‘۔ (2)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان کو عداوۃً چھوڑ رکھے اگر تین دن گزر جائیں تو اس کو چاہیے کہ اپنے بھائی سے مل کر سلام کرے اگر وہ سلام کا جواب دے دے تو(مصالحت کے )ثواب میں دونوںشریک ہیں اور اگر سلام کا جواب نہ دے تو جواب نہ دینے والا گنہگار ہوا۔ اور سلام کرنے والا ترک ِتعلقات کے گناہ سے بری ہوگیا۔ (ابوداود، مشکوۃ)
(۳)’’عَنِ الزُّبَیْرِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَبَّ إِلَیْکُمْ دَائُ الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَائُ ہِیَ الْحَالِقَۃُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَکِنْ تَحْلِقُ الدِّینَ‘‘۔ (1)
حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اگلی امتوں کی بیماری تمہاری طرف بھی آگئی وہ بیماری حسد و بغض ہے جو مونڈنے والی ہے ۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ بال مونڈتی ہے بلکہ وہ دین کو مونڈتی ہے ۔ (احمد، ترمذی)
(۴)’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ‘‘۔ (2)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ حسد سے اپنے آپ کو بچائو اس لیے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو ۔ (ابوداود)

فائدہ :

کسی شخص میں کوئی خوبی دیکھ کر یہ آرزو کرنا کہ وہ خوبی اس سے زائل ہو کر میرے پاس آجائے اسے حسد کہتے ہیں۔ حسد کرنا حرام ہے ۔ (3)
اور اگر یہ تمنا ہے کہ وہ خوبی مجھ میں بھی ہوجائے تو اسے رشک کہتے ہیں۔ یہ جائز ہے ۔
٭…٭…٭…٭

________________________________
1 – ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، مسند الزبیر بن العوام، الحدیث: ۱۴۱۲، ج۱، ص۳۴۸، ’’سنن الترمذی‘‘، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع إلخ، الحدیث: ۲۵۱۸، ج۴، ص۲۲۸.
2 – ’’سنن أبی داود‘‘، کتاب الأدب، باب فی الحسد، الحدیث: ۴۹۰۳، ج۴، ص۳۶۰.
3 – ’’بہارِ شریعت‘‘، حصہ شانزدہم، (۱۶) ص۱۸۵.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!