۔۔۔۔۔۔ توابع کابیان (صفت)۔۔۔۔۔۔

    یادرہے کہ پیچھے جتنے بھی اسمائے معربہ گزرے ان کا اعراب بالاصالت تھا۔ اس طور پر کہ ان پر رفع نصب یا جر دینے والے عوامل داخل تھے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اسم پر اپنے ماقبل کی تبع میں اعراب ظاہر ہوتے ہیں اوربذات خودا س پر کوئی عامل داخل نہیں ہوتا۔ ایسے اسم کو تابع کہتے ہیں ۔ اسکی اصطلاحی تعریف درج ذیل ہے۔ 
تابع کی تعریف:
    ہرو ہ اسم جسے ایک ہی جہت(۱)سے اپنے ماقبل کا اعراب دیا گیا ہو۔جیسے جَاءَ رَجُلٌ عَالِمٌ ۔ اس مثال میں عالمِ تابع ہے۔جسے ماقبل رجل کا اعراب ديا گیا ہے۔
متبوع:
    وہ اسم جو تابع سے پہلے ہو۔
تابع کی اقسام 
تابع کی پانچ اقسام ہیں۔ 
۱۔صفت ۲۔بدل ۳۔ تاکید ۴۔عطف بحرف ۵۔عطف بیان۔
۱۔صفت:
    ایسا تابع جو اپنے متبوع یا اسکے متعلق میں موجود وصف پر دلالت کرے۔متبوع کو
موصوف اور تابع کو صفت کہتے ہیں ۔ 
صفت کی اقسام
صفت کی دو اقسام ہیں ۔    
۱۔ صفت حقیقی    ۲۔ صفت سببی
۱۔صفت حقیقی:
        وہ صفت جو اپنے متبوع (موصوف) میں موجود وصف پر دلالت کرے۔جیسے جَاءَ رَجُلٌ عَالِمٌ ، یہاں عَالِمٌ صفت حقیقی ہے جس نے اپنے متبوع (موصوف) رَجُلٌ میں موجود وصف ِ علم پردلالت کی۔
۲۔ صفت سببی:
    وہ صفت جواپنے متبوع (موصوف) میں موجود وصف پر دلالت نہ کرے۔ بلکہ متبوع (موصوف) کے متعلق میں جووصفی معنی پائے جاتے ہوں ان پر دلالت کرے۔ جیسے جَاءَ رَجُلٌ عَالِمٌ أَبُوْہ، ، یہاں عَالِمٌ صفت سببی ہے۔ جس نے رَجُلٌ کے متعلق أَبُوْہ، میں موجود وصف ِعلم پر دلالت کی۔ لیکن یاد رہے کہ ترکیب میں دونوں جگہ عَالِمٌ کو رَجُلٌ ہی کی صفت بنایا جائے گا۔ 
موصوف صفت میں مطابقت:
    صفت کا اپنے موصوف کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اگرصفت حقیقی ہو تو وہ اپنے موصوف سے دس چیزوں میں موافقت رکھے گی۔جوکہ درج ذیل ہیں۔
۱۔رفع     ۲۔ نصب ۔ ۳۔جر ۴۔ اِفراد ۵۔تثنیہ ۶۔ جمع ۷۔تعریف     ۸۔تنکیر      ۹۔ تذکیر ۱۰۔ تانیث 
    اسکی مثالیں مرکب توصیفی کے بیان میں گزر چکی ہیں۔ مذکورہ بالادس چیزوں میں سے بیک وقت چار چیزوں میں موافقت ضروری ہے۔جیسے قصرٌ عظیمٌ۔ عظیم چار چیزوں یعنی مرفوع،مفرد،مذکر اورنکرہ ہونے میں موصوف کے مطابق ہے۔ اور اگر صفت سببی ہوتو اسکا اپنے موصوف سے پانچ چیزوں میں موافق ہونا ضروری ہے۔ لیکن بیک وقت دو چیزیں پائی جائیں گی۔وہ پانچ چیزیں یہ ہیں۔
۱۔ تعریف    ۲۔ تنکیر    ۳۔ رفع    ۴۔ نصب     ۵۔ جر 
جیسے تعریف ورفع میں جَاءَ زَیْدُنِ الْعَالِمُ أَبُوْہ، اورتنکیر ونصب میں رَأَیْتُ رَجُلاً عَالِمًا أَبُوْہ، (علی ھذا القیاس )۔
صفت کے فوائد: 
    ٭۔۔۔۔۔۔موصوف نکرہ ہو تو صفت لگانے سے نکرہ مخصوصہ بن جاتاہے جیسے رَجُلٌ عَالِمٌ مَوْجُوْدٌ  (عالم آدمی موجود ہے) ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔اور اگر معرفہ ہوتوصفت موصوف کی وضاحت کیلئے آتی ہے۔ جیسے جَاءَ الأُسْتَاذُ الْفَقِیْہُ  (فقیہ استاد آیا)
    ٭۔۔۔۔۔۔موصوف، صفت لگانے سے پہلے بھی معروف ومشہور ہو توصفت یا تومدح کیلئے آتی ہے۔جیسے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا مذمت کیلئے جیسے أَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔کبھی حصول رحم کیلئے بھی صفت ذکر کی جاتی ہے۔ جیسے اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ عَبْدَکَ الْمِسْکِیْنَ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔کبھی صفت موصوف کی تاکید کیلئے لگائی جاتی ہے۔ جیسے نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ اور تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ۔
صفت کے چند ضروری قواعد:
    ٭۔۔۔۔۔۔صفت سببی تذکیروتانیث میں اپنے موصوف کے مطابق ہونے کی بجائے اپنے مابعد کے مطابق ہوتی ہے جیسے جَاءَ تْ فَاطِمَۃُ الْعَاقِلُ زَوْجُہَا۔     ٭۔۔۔۔۔۔صفت سببی میں موصوف اگر چہ تثنیہ یا جمع ہو صفت ہمیشہ مفرد ہی آتی ہے جیسے ھٰؤُلاَءِ بَنَاتٌ عَاقِلٌ أَھْلُھَا ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔صفت واقع ہونے والے صیغے عموما اسم فاعل ،اسم مفعول،صفت مشبہ اور اسم تفضیل کے ہوتے ہیں۔جیسے رَجُلٌ عَالِمٌ،وَقْتٌ مَّعْلُوْمٌ،طِفْلٌ حَسَنٌ،زَیْدُنِ الأَفْضَلُ ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ صفت کے لیے عموما اسم مشتق ہی استعمال ہوتا ہے لیکن کبھی اسم جامد بھی صفت واقع ہوتا ہے اسوقت اسے مشتق کی تاویل میں کیا جاتاہے جیسے ذُوْصاحب کے معنٰی میں ہو کر مشتق بن جاتا ہے۔جیسے جَاءَ رَجُلٌ ذُوْمَالٍ  (مال والا آدمی آیا)۔
    ٭۔۔۔۔۔۔اسم نکرہ کے بعد جملہ اسمیہ یا فعلیہ ہو تو یہ نکرہ کی صفت واقع ہوتے ہیں جیسے جَاءَ رَجُلٌ أَبُوْہُ مُمَرِّضٌ اور جَاءَ رَجُلٌ یَقْرَءُ الْقُرْآنَ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔جب جملہ صفت واقع ہو رہا ہو تو اس میں ایک ضمیر ہوتی ہے جو واحد و تثنیہ
وجمع اور تذکیر وتانیث میں موصوف کے مطابق ہوتی ہے ۔ جیسے جَاءَ رَجُلٌ ضَرَبَ زَیْدًا
    ٭۔۔۔۔۔۔اگر موصوف جمع مکسریا غیر ذوی العقول کی جمع ہو تو صفت واحد مؤ نث بھی آسکتی ہے ۔جیسے رِجَالٌ کَثِیْرَۃٌ، کُتُبٌ مُفِیْدَۃٌ،أَشْجَارٌ مُثْمِرَۃٌ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔اِبْنٌ یا بِنْتٌ جب کسی کی صفت واقع ہوں تو موصوف سے تنوین گر جاتی ہے نیز اِبْنٌ اور بِنْتٌ سے بھی تنوین گر جاتی ہے کیونکہ یہ ما بعد کے لیے مضاف واقع ہوتے ہیں جیسے زَیْدُ بْنُ عَمْرٍو اور ھِنْدُ بِنْتُ زَیْدٍ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔اسم نکرہ کے بعد لفظ غَیْرُ آجائے تو عموما یہ نکرہ کی صفت واقع ہوتا ہے جیسے اِنَّہ، عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ۔
   ٭۔۔۔۔۔۔اسی طرح اسم نکرہ کے بعدلفظ ذَات آجائے تو یہ بھی نکرہ کی صفت بنتا ہے جیسے فِیْ کُلِّ صَلوٰۃٍ ذَاتِ رُکُوْعٍ وَّ سُجُوْدٍ۔
1۔۔۔۔۔۔جہت ایک ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگر پہلے اسم پر فاعل ہونیکی وجہ سے رفع ہو تو دوسرے پر بھی اسی وجہ سے رفع ہو اسی طرح نصب وجر میں بھی۔
Exit mobile version