حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن اپنے احباب، اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم،اپنے رشتے داروں،اپنے پڑوسیوں ہر ایک کے ساتھ اتنی خوش اخلاقی اور ملنساری کا برتاؤ فرماتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا گرویدہ اور مداح تھا،خادم خاص حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ میں نے دس برس تک سفر و وطن میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا مگر کبھی بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا نہ جھڑکا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تو نے فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا؟ (1)(زرقانی جلد۴ ص۲۶۶)
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی خوش اخلاق نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے جو کوئی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکارتا تو آپ لبیک کہہ کر جواب دیتے۔ حضرت جریر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا کبھی بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے پاس آنے سے نہیں روکا اور جس وقت بھی مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے خوش طبعی بھی فرماتے اور سب کے ساتھ مل جل کر رہتے اور ہر ایک سے گفتگو فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بچوں سے بھی خوش طبعی فرماتے اور ان بچوں کو اپنی مقدس گود میں بٹھا لیتے اور آزاد نیز لونڈی غلام اور مسکین سب کی دعوتیں قبول فرماتے اور مدینہ کے انتہائی حصہ میں رہنے والے مریضوں کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے جاتے اور عذر پیش کرنے والوں کے عذر کو قبول فرماتے۔(1) (شفاء شریف جلد۱ ص۷۱)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ اگر کوئی شخص حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کان میں کوئی سرگوشی کی بات کرتا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس وقت تک اپنا سر اس کے منہ سے الگ نہ فرماتے جب تک وہ کان میں کچھ کہتا رہتا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ا ور جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے آتا آپ سلام کرنے میں پہل کرتے اور ملاقاتیوں سے مصافحہ فرماتے اور اکثر اوقات اپنے پاس آنے والے ملاقاتیوں کے لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی چادر مبارک بچھا دیتے اور اپنی مسند بھی پیش کر دیتے اور اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ان کی کنیتوں اور اچھے ناموں سے پکارتے کبھی کسی بات کرنے والے کی بات کو کاٹتے نہیں تھے۔ ہر شخص سے خوش روئی کے ساتھ مسکرا کر ملاقات فرماتے، مدینہ کے خدام اور نوکر چاکر برتنوں میں صبح کو پانی لے کر آتے تا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے برتنوں میں دست مبارک ڈبو دیں اور پانی متبرک ہو جائے توسخت جاڑے کے موسم میں بھی صبح کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہر ایک کے برتن میں اپنا مقدس ہاتھ ڈال دیا کرتے تھے اور جاڑے کی سردی کے باوجود کسی کومحروم نہیں فرماتے تھے۔ (2)
(شفاء شریف جلد۱ ص۷۲)
حضرت عمرو بن سائب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رضاعی باپ یعنی حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے شوہرتشریف لائے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کا ایک حصہ ان کے لئے بچھا دیا اور وہ اس پر بیٹھ گئے پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضاعی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا تشریف لائیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کا باقی حصہ ان کے لئے بچھا دیا پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی آئے تو آپ نے ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ثویبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس ہمیشہ کپڑا وغیرہ بھیجتے رہتے تھے یہ ابولہب کی لونڈی تھیں اور چند دنوں تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو انہوں نے بھی دودھ پلایا تھا۔(1) (شفاء شریف ج۱ ص۷۵)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے لئے کوئی مخصوص بستر نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ ازواجِ مطہرات کے بستروں ہی پر آرام فرماتے تھے اور اپنے پیار و محبت سے ہمیشہ اپنی مقدس بیویوں رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن کو خوش رکھتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں پیالے میں پانی پی کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب پیالہ دیتی تو آپ پیالے میں اسی جگہ اپنا لب مبارک لگا کر پانی نوش فرماتے جہاں میرے ہونٹ لگے ہوتے اور میں گوشت سے بھری کوئی ہڈی اپنے دانتوں سے نوچ کر وہ ہڈی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیتی تو آپ بھی اسی جگہ سے گوشت کو اپنے دانتوں سے نوچ کر تناول فرماتے جس جگہ میرا منہ لگا ہوتا۔ (2) (زُرقانی جلد۴ ص۲۶۹)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم روزانہ اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے ملاقات فرماتے اور اپنی صاحبزادیوں کے گھروں پر بھی رونق افروز ہو کر ان کی خبر گیری فرماتے اوراپنے نواسوں اور نواسیوں کو بھی اپنے پیار و شفقت سے بار بار نوازتے اور سب کی دلجوئی و رواداری فرماتے اور بچوں سے بھی گفتگو فرما کر ان کی بات چیت سے اپنا دل خوش کرتے اور ان کا بھی دل بہلاتے اپنے پڑوسیوں کی بھی خبر گیری اور ان کے ساتھ انتہائی کریمانہ اور مشفقانہ برتاؤ فرماتے الغرض آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے طرزِ عمل اور اپنی سیرت مقدسہ سے ایسے اسلامی معاشرہ کی تشکیل فرمائی کہ اگر آج دنیا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے لگے تو تمام دنیا میں امن و سکون اور محبت و رحمت کا دریا بہنے لگے اور سارے عالم سے جدال و قتال اور نفاق و شقاق کا جہنم بجھ جائے اور عالم کائنات امن و راحت اور پیار و محبت کی بہشت بن جائے۔