غیرِ طبیب کو علاج میں ہاتھ ڈالنا حرام ہے

بعض لوگ حقیقی معنوں میں باقاعِدہ ڈاکٹر یا حکیم نہ ہونے کے باوُجُود کلینک یا مَطَب کھول کر مریضوں کا علاج شروع کر دیتے ہیں۔ایسا کرنا قانوناً جُرم ہونے کے ساتھ ساتھ شرعاً بھی ممنوع ہے۔نِیز ایک فن کاماہر دوسرے فن کے طریقِ علاج کے مطابِق مریضوں پر تجرِبات نہ کرے۔ مَثَلاً اَیلو پیتھی یا ہومِیوپَیتھی یا بائیوکِیمی والے ڈاکٹر ز باقاعِدہ سیکھے بغیر ایک دوسرے کے شعبے کی دواؤں سے اور یونانی طِب(حکمت)کے مطابِق علاج نہ فرمائیں۔اسی طرح جوجو حکیم صاحِبان باقاعدہ ڈاکٹر نہیں ہیں وہ بھی جڑی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹری دوائیں مریضوں پر نہ آزمائیں۔ میڈیکل اسٹور والے بھی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق مریضوں کودوائیں نہ دیا کریں۔ اور یوں بھی بِغیر ڈاکٹر کی چِٹّھی کے دوا بیچنا قانوناً جُرم ہے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جہاں کسی مریض سے مُلاقات ہوئی جَھٹ کوئی نہ کوئی دوا یانُسخہ ارشاد فرما دیتے ہیں !یا درکھئے ! جو ماہرِطبیب نہ ہو اُس کومریض کے علاج میں ہاتھ ڈالنا کارِ ثواب نہیں بلکہ حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔اگر کوئی ایسا غیر ماہرِ طبیب کلینک یادو اخانہ کھول کر مریضوں کاعلاج کرنے بیٹھ گیا ہو تو فوراً یہ ناجائز کام بند کرنا فرض ہے اور توبہ کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے۔ ہاں غیرِطبیب نے مطب یا دواخانہ کھول رکھا ہے مگر خود علاج نہیں کرتا بلکہ ماہرِطبیب بٹھا رکھے ہیں تو کوئی مُضایَقہ نہیں۔
Exit mobile version