رمضان ۸ ھ تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرت مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا کیونکہ تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یارغار کو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا تھااور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ ”اے مکہ!خدا کی قسم!تو میری نگاہ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔” لیکن آٹھ برس کے بعد یہی وہ مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔
لیکن ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھاتا ہوگا کہ جب کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں یہ تحریر کیا جا چکا تھا کہ دس برس تک فریقین کے مابین کوئی جنگ نہ ہوگی تو پھر آخر وہ کونسا ایسا سبب نمودار ہوگیا کہ صلح نامہ کے فقط دو سال ہی بعد تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اہل مکہ کے سامنے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پیش آگئی اور آپ ایک عظیم لشکر کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا سبب کفارمکہ کی ”عہدشکنی” اور حدیبیہ کے صلح نامہ سے غداری ہے۔ (1)
1۔۔۔۔۔۔السیرۃ الحلبیۃ،باب ذکر مغازیہ،غزوۃ خیبر،ج۳،ص۷۴، ماخوذاً