اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
لَنۡ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۹۲﴾
ترجمہ کنزالایمان: تم ہر گز بھلائی کو نہ پہنچو گے (۱) جب تک راہِ خدا ميں اپنی پيا ری چيز نہ خرچ کرو(۲) اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے(۳)۔(پ۴، اٰل عمرٰن:۹۲)
تفسير:
(۱) بھلائی سے مراد تقویٰ اور اطاعتِ الہٰی ہے ۔يا اس کی نعمتیں ہیں تو پانے سے مراد اوّلاً پانا ہے ۔
(۲) اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ايک يہ کہ سارا مال خيرات نہ کرے۔ کچھ خيرات کرے کچھ اپنے خرچ کے لئے رکھے۔ اسلئے مما فرمايا ۔دوسر۱ يہ کہ ہر مال ميں سے خرچ کرے اس لئے ما کو عام رکھاگيا ۔تيسرا يہ کہ صرف فرض پر کفايت نہ کرے بلکہ صدقہ نفلی بھی ديا کرے اسلئے تُنْفِقُوْنَ کو عام رکھا گيا ۔چوتھا يہ کہ اپنی پيا ری چيز اللہ تعالیٰ کی راہ ميں خيرات کرے حضرت عمر بن عبدالعزيز رضی اللہ تعالیٰ عنہ شکر کی بوريا ں خريد کر خيرات کرتے تھے ۔لوگوں نے عرض کيا کہ آپ ان بوريوں کی قيمت ہی کيوں نہ خيرات فرما ديں۔ تو فرمايا کہ، مجھے شکر مرغوب ہے اور يہ آيت کريمہ تلاوت کی۔ پانچواں يہ کہ خيرات کی قبوليت اخلاص پر موقوف ہے زيا دتی اور کمی پر موقوف نہيں۔
(۳) يعنی رب عزوجل يہ بھی جانتا ہے کہ تم نے کيا مال خرچ کيا ۔اور يہ بھی جانتا ہے کہ کس نيت سے خرچ کيا ۔ لہٰذا اخلاص سے خيرات کرو ۔اچھے مال کا ذکر تو پہلے فرمايا ، اچھی نيت کا ذکر يہاں ہوا۔(تفسير نورالعرفان)