حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

    یہ اعلان نبوت سے سات برس پہلے جب کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف کا تینتیسواں سال تھاپیداہوئیں اور ابتداء اسلام ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ پہلے ان کا نکاح ابولہب کے بیٹے ”عتبہ” سے ہوا تھا لیکن ابھی ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ”سورہ تبت یدا” نازل ہوگئی۔ ابو لہب قرآن میں اپنی اس دائمی رسوائی کا بیان سن کر غصہ میں آگ بگولا ہوگیا اور اپنے بیٹے عتبہ کو مجبور کردیا کہ وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دے دے۔ چنانچہ عتبہ نے طلاق دے دی۔
    اس کے بعد حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کانکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردیا۔ نکاح کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ساتھ لے کر مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر حبشہ سے مکہ واپس آ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور یہ میاں بیوی دونوں ”صاحب الہجرتین”(دو ہجرتوں والے)کے معززلقب سے سرفراز ہوگئے۔ جنگ ِ بدر کے دنوں میں حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت سخت بیمار تھیں۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ ِ بدر میں شریک ہونے سے روک دیا اور یہ حکم دیا کہ وہ حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری کریں۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس دن جنگ ِ بدر میں مسلمانوں کی فتح مبین کی خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے اسی دن حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیس سال کی عمر پا کر وفات پائی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِ بدر کے سبب سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے۔
    حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ جنگ ِ بدر میں شریک نہ ہوئے لیکن حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو جنگ ِ بدر کے مجاہدین میں شمار فرمایا اور جنگ ِ بدر کے مالِ غنیمت میں سے ان کو مجاہدین کے برابر حصہ بھی عطا فرمایا اور شرکاء جنگ ِ بدر کے برابر اجر عظیم کی بشارت بھی دی۔
حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک فرزند بھی پیدا ہوئے تھے جن کا نام ”عبداﷲ” تھا۔ یہ اپنی ماں کے بعد    ۴ ھ؁ میں چھ برس کی عمر پا کر انتقال کرگئے۔(1)( رضی اللہ تعالیٰ عنہ)(زرقانی جلد ۳ ص۱۹۸ تا ۱۹۹)
Exit mobile version