حضرت عماررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت ملے گی

 حضرت ابو سعید خدری و حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خندق کھود رہے تھے اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سر پر اپنا دستِ شفقت پھیر کر ارشاد فرمایا کہ افسوس!تجھے ایک باغی گروہ قتل کریگا۔(1)(مسلم جلد ۲ ص ۳۹۵ کتاب الفتن)
    یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ صفین کے دن حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اورحضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔
    اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یقینا حق پر تھے اور حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا گروہ یقینا خطا کا مرتکب تھا۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کی خطا اجتہادی تھی لہٰذا یہ لوگ گنہگارنہ ہوں گے کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں صحیح اور درست مسئلہ تک پہنچ گیا تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مجتہد نے اپنے اجتہاد میں خطا کی جب بھی اس کو ایک ثواب ملے گا۔ (2)(حاشیہ بخاری بحوالہ کرمانی جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوۃ)
    اس لیے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن ہرگز ہرگز جائز نہیں کیونکہ بہت سے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اس جنگ میں حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔
     پھر یہ بات بھی یہاں ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ مصری باغیوں کاگروہ جنہوں نے حضرت امیرالمؤمنین عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا محاصرہ کرکے ان کو شہید کر دیا تھا یہ لوگ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں شامل ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لڑ رہے تھے تو ممکن ہے کہ گھمسان کی جنگ میں انہی باغیوں کے ہاتھ سے حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے ہوں۔ اس صورت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل صحیح ہوگا کہ ”افسوس اے عمار! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کریگا ”اور اس قتل کی ذمہ داری سے حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن پاک رہے گا۔ 
واﷲ تعالیٰ اعلم۔
    بہرحال حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن کرنا رافضیوں کا مذہب ہے حضرات اہل سنت کو اس سے پرہیز کرنا لازم و ضروری ہے۔
Exit mobile version