حلال روزی کمانے کا بیان

    اتنا کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے گزارہ کے لئے اور جن لوگوں کا خرچہ اس کے ذمہ واجب ہے ان کا خرچ چلانے کے لئے اور اپنے قرضوں کو ادا کرنے کے لئے کافی ہو اس کے بعد اسے اختیار ہے کہ اتنی ہی کمائی پر بس کرے یا اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے کچھ پس ماندہ مال رکھنے کی بھی کوشش کرے کسی کے ماں باپ اگر محتاج و تنگ دست ہوں تو لڑکوں پر فرض ہے کہ کما کر انہیں اتنا دیں کہ ان کے لئے کافی ہو جائے۔  (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۸۔۳۴۹)
مسئلہ:۔سب سے افضل کمائی جہاد ہے یعنی جہاد میں جو مال غنیمت حاصل ہوا جہاد کے بعد افضل کمائی تجارت ہے پھرزراعت پھرصنعت و حرفت کا مرتبہ ہے۔  (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۹)
مسئلہ:۔جو لوگ مسجدوں اور بزرگوں کی خانقاہوں اور درگاہوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور بسر اوقات کے لئے کوئی کام نہیں کرتے اور اپنے کو متوکل بتاتے ہیں حالانکہ ان کی نظریں ہر وقت لوگوں کی جیبوں پر لگی رہتی ہیں کہ کوئی ہمیں کچھ دے جائے ان لوگوں نے اس کو اپنی کمائی کا پیشہ بنا لیا ہے اور یہ لوگ طرح طرح کے مکرو فریب سے کام لے کر لوگوں سے رقمیں کھسوٹتے ہیں ان لوگوں کے یہ طریقے ناجائز ہیں ہر گز ہر گز یہ لوگ متوکل نہیں بلکہ مفت خور اور کام چور ہیں اس سے لاکھوں درجے یہ اچھا ہے کہ یہ لوگ بسر اوقات کے لئے کچھ کام کرتے اور رزق حلال کھا کر خدا کے فرائض کو ادا کرتے
 (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۹)
مسئلہ:۔اپنی ضرورتوں سے بہت زیادہ مال و دولت کمانا اگر اس نیت سے ہو کہ فقراء و مساکین اور اپنے رشتہ داروں کی مدد کریں گے تو یہ مستحب بلکہ نفلی عبادتوں سے افضل ہے اور اگر اس نیت سے ہو کہ میرے وقار و عزت میں اضافہ ہوگا تو یہ بھی مباح ہے لیکن اگر مال کی کثرت اور فخر و تکبر کی نیت سے زیادہ مال کمائے تو یہ ممنوع ہے۔  (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس عشر فی الکسب،ج۵،ص۳۴۹)
Exit mobile version