حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ سخاوت محتاج بیان نہیں۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انسانوں سے زیادہ بڑھ کر سخی تھے۔ خصوصاً ماہ رمضان میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سخاوت اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ برسنے والی بدلیوں کو اٹھانے والی ہواؤں سے بھی زیادہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سخی ہو جاتے تھے۔
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سائل کے جواب میں خواہ وہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کرے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے لا (نہیں) کا لفظ نہیں فرمایا۔(شفاء شریف جلد۱ ص۶۵)
یہی وہ مضمون ہے جس کو فرزدق شاعر تابعی متوفی ۱۱۰ ھ نے کیا خوب کہا ہے کہ(1) ؎
مَا قَالَ لَا قَطُّ اِلَّا فِیْ تَشَھُّدِہٖ
لَوْلاَ التَّشَھُّدُ کَانَتْ لَاؤہٗ نَعَمْ
اسی کا ترجمہ کسی فارسی کے شاعر نے اس طرح کیا ہے کہ ؎
نہ گفت لا بزبان مبارکش ہر گز
مگر در اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ
یعنی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سائل کے جواب میں لا(نہیں) کا لفظ نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ نعم(ہاں) ہی کہا مگر کلمہ شہادت میں لا (نہیں) کا لفظ ضرور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر آتا تھا اور اگر کلمہ شہادت میں لا کہنے کی ضرورت نہ ہوتی تو اس میں بھی لا (نہیں) کی جگہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نَعَمْ (ہاں) ہی فرماتے۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سخاوت کسی سائل کے سوال ہی پر محدود و منحصر نہیں تھی بلکہ بغیر مانگے ہوئے بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس قدر زیادہ مال عطا فرما دیا کہ عالم سخاوت میں اس کی مثال نادر و نایاب ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بہت بڑے دشمن امیہ بن خلف کافر کا بیٹا صفوان بن امیہ جب مقام ”جعرانہ” میں حاضر دربار ہوا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اتنی کثیر تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطافرما دیا کہ دو پہاڑیوں کے درمیان کا میدان بھر گیا۔
چنانچہ صفوان مکہ جا کر چلا چلا کر اپنی قوم سے کہنے لگا کہ اے لوگو! دامن اسلام میں آ جاؤ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اس قدر زیادہ مال عطافرماتے ہیں کہ فقیری کا کوئی اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا اس کے بعد پھر صفوان خود بھی مسلمان ہوگئے۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ۔(1) (زرقانی ج۴ ص۲۹۵)
بہر حال آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جودونوال اور سخاوت کے احوال اس قدر عدیم المثال اور اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کا تذکرہ تحریر کیا جائے تو بہت سی کتابوں کا انبار تیارہو سکتا ہے مگر اس سے پہلے کے ا وراق میں ہم جتنا اور جس قدر لکھ چکے ہیں وہ سخاوت نبوت کو سمجھنے کے لئے بہت کافی ہے۔ خداوند کریم عزوجلہم سب مسلمانوں کو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پرزیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)