عالم میں جو کچھ بھلا’ برا ہوتا ہے۔ سب کو اﷲتعالیٰ اس کے ہونے سے پہلے ہمیشہ سے جانتا ہے اور اس نے اپنے اسی علم ازلی کے موافق پر بھلائی برائی مقدر فرمادی ہے”تقدیر” اسی کا نام ہے جیسا ہونے والا ہے اور جو جیسا کرنے والا تھا اس کو پہلے ہی ﷲتعالیٰ نے اپنے علم سے جانا اور اسی کو لوح محفوظ پر لکھ دیا۔ تو یہ نہ سمجھو کہ جیسا اس نے لکھ دیا مجبوراً ہم کو ویسا ہی کرنا پڑتا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا ہی اس نے بہت پہلے لکھ دیا۔ زید کے ذمہ برائی لکھی اس لئے کہ زید برائی کرنے والا تھا۔ اگر زید
بھلائی کرنے والا ہوتا تو وہ زید کے لئے بھلائی لکھتا ۔ تو ﷲتعالیٰ نے تقدیر لکھ کر کسی کو بھلائی یا برائی کرنے پر مجبور نہیں کر دیا ہے۔
(النبراس،مسئلۃالقضاء والقدر،ص۱۷۴۔۱۷۵/ شرح الملاء علی القاری علی الفقہ الاکبر، لم یجبراللہ احدًا من خلقہ،ص۴۸۔۵۳)
عقیدہ :۱تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروریات دین میں سے ہے تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس امت کا ”مجوس” بتایا ہے۔
(المعتقد المنتقدمع المستند المعتمد،منہ (۱۴)الاعتقادبقضائہ وقدرہ، ص۵۱۔۵۲)
عقیدہ :۲تقدیر کے مسائل عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ اس لئے تقدیر کے مسائل میں زیادہ غور و فکر اور بحث و مباحثہ کرنا ہلاکت کا سبب ہے۔ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق وامیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہما تقدیر کے مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرما گئے ہیں۔ پھر بھلا ہم تم کس گنتی میں ہیں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کریں۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ ہم تقدیر پر ایمان لائیں۔ اور اس مشکل اور نازک مسئلہ میں ہرگز ہرگز کبھی بحث ومباحثہ اور حجت و تکرار نہ کریں کہ اسی میں ایمان کی سلامتی ہے۔
(جامع الترمذی، کتاب القدر، باب ماجاء من التشدید فی الخوض فی القدر، رقم ۲۱۴۰،ج۴،ص۵۱/ المعجم الکبیر ،رقم ۱۴۲۳،ج۲،ص۹۵) واﷲ تعالیٰ اعلم۔