اسی طرح حضرت سَیِّدُنا عبدُ الرحمٰن بن عامِری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنی قوم کے شُیوخ سے رِوایَت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بازارِ عُکاظ میں تھے کہ سرورِ دو۲عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں دینِ اِسلام کی دعوت دی جو ہم نے قُبول کر لی۔ اتنے میں بُحیرہ بن فِراس قُشَیری آیا اور اس نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اونٹنی کی کوکھ میں نیزہ چبھا دیا جس کی وجہ سے وہ اچھلی اور آپ زمین پر تشریف لے آئے۔ اس دن حضرت سَیِّدَتُنا ضُباعہ بنتِ عامِر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی اِیمان لا کر عاشِقانِ مصطفےٰ میں شامِل ہو چکی تھیں، انہیں مَعْلُوم ہوا تو وہ آپے سے باہَر ہو گئیں اور اپنے چچا زاد بھائیوں کے پاس آکر ان کی غیرت کو جھنجھوڑتے ہوئے غضبناک لہجے میں بولیں:اے آلِ عامِر! مجھے تمہارا کیا فائدہ! تمہارے سامنے میرے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بے اَدَبی کی گئی اور تم میں سے کسی نے اسے نہیں روکا۔ یہ سن کر فوراً آلِ عامِر کے تین۳ آدمی اُٹھے اور قبیلہ بُحیرہ کے تین۳آدمیوں کو پکڑ کر ان کی خوب دُرْگَت بنائی حالانکہ یہ ابھی تک مسلمان بھی نہ ہوئے تھے مگر انہوں نے تَحَفُّظِ عَظَمَتِ رَسول پر جس جرأت کا مُظاہَرہ کیا تھا اس پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خوش ہو کر انہیں بَرَکت کی دُعا دی تو ان کے دِلوں میں عِشْقِ مُصطفےٰ کی وہ شَمْع فَروزاں ہوئی کہ اِسلام قبول کر کے بعد میں ان سب نے حُرْمَتِ رَسول کی پاسبانی کرتے ہوئے اپنی جانیں اپنے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر قربان کر دیں۔1
……… اسد الغابة،حرف الضاد،۷۰۷۷-ضباعة بنت عامر،۷/ ۱۷۶ملخصاً