امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جناب میں کوفیوں کی درخواستیں
یزیدیوں کی کوششوں سے اہل شام سے جہاں یزید کی تخت گاہ تھی یزید کی رائے مل سکی اور وہاں کے باشندوں نے ا س کی بیعت کی۔ اہل کوفہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ ہی میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں درخواستیں بھیج رہے تھے، تشریف آوری کی التجائیں کررہے تھے لیکن امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صاف انکار کردیا تھا۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات اور یزید کی تخت نشینی کے بعد اہل عراق کی جماعتوں نے متفق ہوکر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں درخواستیں بھیجیں اور ان میں اپنی نیاز مندی و جذبات عقیدت و اخلاص کا اظہار کیا اور حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنے جان و مال فدا کر نے کی تمنا ظاہر کی، اس طرح کے التجا ناموں ا ور درخواستوں کا سلسلہ بندھ گیا اور تمام جماعتوں اور فرقوں کی طرف سے ڈیڑھ سو کے قریب عرضیاں حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پہنچیں،کہاں تک اِغْماض کیا جاتااور کب تک حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخلاق جوابِ خشک کی اجازت دیتے؟ ناچار آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روانگی تجویز فرمائی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اگرچہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر مشہور تھی اور کوفیوں کی بیوفائی کا پہلے بھی تجربہ ہو چکا تھا مگر جب یزید بادشاہ بن گیااور اس کی حکومت و سلطنت دین کے لئے خطرہ تھی اور اس کی وجہ سے اس کی بیعت نارواتھی اور وہ طرح طرح کی تدبیروں او ر حیلوں سے چاہتا تھا کہ لوگ اس کی بیعت کریں۔ ان حالات میں کوفیوں کا بپاسِ ملت یزید کی بیعت سے دست کَشی کرنا اورحضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طالبِ بیعت ہونا امام پر لازم کرتا تھا کہ ان کی درخواست قبول فرمائیں جب ایک قوم ظالم و فاسق کی بیعت پر راضی نہ ہواور صاحب استحقاق اہل سے درخواستِ بیعت کرے اس پر اگر وہ ان کی استدعاقبول نہ کرے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ اس قوم کو اس جابر ہی کے حوالے کرنا چاہتاہے ۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر اس وقت کوفیوں کی درخواست قبول نہ فرماتے تو بارگاہِ الٰہی عزوجل میں کوفیوں کے اس مطالبہ کا امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کیا جواب ہوتا کہ ہم ہر چند درپے ہوئے مگر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیعت کے لئے راضی نہ ہوئے ۔بدیں وجہ ہمیں یزید کے ظلم وتشدد سے مجبور ہوکراس کی بیعت کرنا پڑی اگر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہاتھ بڑھاتے تو ہم ان پر جانیں فدا کرنے کیلئے حاضر تھے۔ یہ مسئلہ ایسا درپیش آیا جس کا حل بجز اس کے اور کچھ نہ تھا کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی دعوت پر لبیک فرمائیں۔
اگرچہ اکابر صحابہ کرام حضرت ابن عباس و حضرت ابن عمر و حضرت جابر و حضرت ابوسعید وحضرت ابو واقدلیثی وغیر ہم علیہم الرضوان حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس رائے سے متفق نہ تھے اورا نہیں کوفیوں کے عہد ومَواثِیْق کا اعتبار نہ تھا، امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت اور شہادتِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکی شہرت ان سب کے دلوں میں اِخْتِلاج پیدا کر رہی تھی، گوکہ یہ یقین کرنے کی بھی کوئی وجہ نہ تھی کہ شہادت کا یہی وقت ہے اور اسی سفر میں
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
یہ مرحلہ درپیش ہوگالیکن اندیشہ مانع تھا۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے مسئلہ کی یہ صورت در پیش تھی کہ اس استدعا کو روکنے کے لئے عذر شرعی کیاہے۔ ادھر ایسے جلیل القدر صحابہ علیہم الرضوان کے شدید اصرار کا لحاظ، ادھر اہل کوفہ کی استدعا ردنہ فرمانے کے لئے کوئی شرعی عذر نہ ہوناحضرت امام کے لئے نہایت پیچیدہ مسئلہ تھا جس کا حل بجزا س کے کچھ نظر نہ آیا کہ پہلے حضرت امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجاجائے اگر کوفیوں نے بد عہدی وبے وفائی کی تو عذر شرعی مل جائے گا اور اگر وہ اپنے عہد پر قائم رہے توصحابہ کو تسلی دی جاسکے گی۔(1)
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،باب یزید بن معاویۃ ابوخالد الاموی، ص۱۶۴۔۱۶۵ملتقطاً
والکامل فی التاریخ ، سنۃ ستین، خروج الحسین…الخ، دعوۃ اہل الکوفۃ …الخ،
ج۳، ص۳۸۵،۳۸۶ملتقطاً
والبدایۃ والنہایۃ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق، ج۵،
ص۶۶۷ملتقطاً وملخصاً