شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کلام الانوارؔ، انوار الکلام
از :حضرت قطب معین الدین انصاریؒ(سوانح نگارامام انوار اللہ فاروقیؒ)
دنیا میں چہل پہل باعث جذبات ہی ہے، انسانی معاشرت کی بنیادیں ان ہی پر قائم ہیں اور یہی انسانیت کے طرئہ امتیاز ہیں۔ جب یہ ایک خاص قاعدہ کے موافق لفظوں کا لباس پہن لیتے ہیں تو شعر کہلاتے ہیں۔ جذبات کے معنی خواہشات نفسانی کے ہی نہیں بلکہ انفعالات نفسانی کیفیات وجدانی کے ہیں۔ اس ہی لئے کہا گیا۔ ان من الشعرلحکمۃ وان من البیان لسحرا۔
صحیح جذبات مخربِ اخلاق نہیں۔ شعر‘ جن کی بنیاد جذبات صحیحہ پرہو دلوں کو گرماتے حوصلوں کو بڑھاتے بگڑے اخلاق کو سنوار تے۔ گری ہوئی قوموں کو ابھارتے او رگمراہوں کو صراطِ المستقیم پر لگادیتے ہیں۔
علامہ حضرت حافظ محمد انواراللہ خان بہادر فضیلت جنگ علیہ الرحمہ علماء ربانین سے زبردست معلمِ اخلاق، جیّد رہنمائے قوم وملّت‘ علم وعمل، زہد وتقوی کے پیکر، پارسائی اور خدا ترسی کے نمونہ گزرے ہیں، جن کے فیوضات شاہ سے گدا تک یکسر جاری وساری رہے۔
جیسا کہ بعض محققین نے کہا ہے۔ دنیوی کاموں کی کثرت سے ذہن میں تیزی آجاتی ہے۔مگر دل مرجھاجاتا ہے اگر کوئی علاج دل کو بہلانے اور تروتازہ رکھنے میں چپکے چپکے مگر نہایت قوت کے ساتھ مدد دیتا ہے تو وہ شعر کا اثر اور شاعری کا مشغلہ ہوتا ہے۔
اس کے بموجب حضرت موصوفؒ کے دل پر جب کبھی علمی مشغولیت، انتظامات، امور مذہبی کی مصروفیت، قوم کی بے مائیگی وفلاکت ، وفور شوق ومحبت الہی کے اثرات مرتب ہوئے تو جذبات موزوں شعر کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں، جو قلمبند کر لئے جاتے ہیں۔
آپ کاعلمی تبحر شعر کہنے والے ایک شاعر سے بہت ماوراء تھا۔ جس کے سامنے شاعر کی کوئی خاص وقعت نہ تھی۔ شاعری فنون لطیفہ سے ایک فن ہے۔ کارِ بیکاراں سمجھ کر آپ نے اس کو چھوڑدینا پسند نہ فرمایا۔ اپنے شریف، قدسیانہ جذبات موزوں اشعار میں فصاحت لفظی وبلاغت معنوی کے ساتھ ظاہر فرمادیئے۔ طرائے امتیاز یہ کہ شاعرانہ غلو نام کو نہیں۔ سوز و گداز اور تاثیر کا یہ عالم کہ درد آشنا‘ واقفِ راز سامع شعر سن کر وجدانی کیفیت کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کلام میں رنگینیٔ خیال کی جھلک بھی پائی جاتی ہے۔ زہد وتقوی کے باجود حضرت مولانا کے ہم عصر، عظیم المرتبت شاعر حضرت مفتی امیراحمد مینائیؔ کے کلام میں بلا کی شوخی و رنگینی پائی جاتی ہے۔ اس نقطہ نظرسے امام الفن حافظ فصاحت جنگ جلیلؔ کا کلام ملاحظہ فرمایا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ زہد وتقوی چیزے دیگر یست۔ یہ کہنا کہ ؎
’’عالم شاعر نہیں ہوتا اگر وہ شعرکہنے لگے تو متشاعر ہوجاتا ہے۔ اور شاعری فنا ہوجاتی ہے‘‘۔ سارے مفروضات ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عالم جو عربی وفارسی اور مختلف زبانوں او ر علوم سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ وہی آسانی کے ساتھ اپنے خیالات وجذبات کو اپنی مادری زبان میں بحُسن وخوبی ظاہر کرسکتا ہے۔ اس کے سامنے مختلف زبانوں کے اسالیب بیان ہوتے ہیں اور وہ ان ہی سے قادر الکلام ہوتا ہے۔ فن عروض سے اچھی طرح واقفیت اسی کو حاصل ہوتی ہے۔
یہ مانی ہوئی بات ہے کہ عربی زبان میں خیالات و جذبات کے سموئے جانے کی جو وسعت ہے نوزائدہ اور اس کی خوشہ چین زبانِ اردو میں نہیں۔ پھر عربی داں عالم بھی سمندر کی گہرائیوں سے واقف تیراک اوتھل پانی سے تیرنانہ جانے۔ غضب ہے۔ یہ کچھ خلافِ عقل معلوم ہوتا ہے مجبوراً کہنا پڑتا ہے ؎
گلست سعدی در نظر دشمناں خاراست
دنیا میں کسی کا کوئی فعل وقول ایسا نہیں جس پر کوئی اعتراض نہ کیا جاسکے۔ او رکوئی اعتراض ایسا نہیں جس کا کوئی جواب نہ دیا جاسکے۔
مفتی صدر الدین آزردہؔ جید عالم وفاضل بعہد بہادر شاہ ظفرؔ دلّی کے مفتی وقت اساتذہ کلام اردو سے گزرے ہیں اور ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ دور کا ہے کوجائیں۔ موجودہ دور میں حیدرآباد کے استاد العلماء مولانا عبد القدیر صدیقی حسرتؔ موجود ہیں۔ اور ان کا کلام اس خصوص میں دعوتِ مطالعہ دے رہا ہے۔
حضرت کا ایک شعر مرزا غالبؔ وحیر تؔ کے شعر سے بطور تقابل یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ اہلِ تنقید خود عالم کے کلام سے شعریت کی روح اُجاگر ہونے کا صحیح اندازہ کرلیں۔
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے
خوب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس
(غالبؔ)
میں الم میں ہوںدل زار کو لے جا ظالم
آہ بیمار کو رکھتے بیمار کے پاس
(حیرتؔ)
چشمِ بیمار کی جانے دلِ بیمارہی قدر
قدرِ بیمار ہوا کرتی ہے بیمار کے پاس
(مولانا انوارؔ)
حضرت کے کلامِ عشق کی رنگینی فصیح انداز میں ملاحظہ ہو:۔
خنجر ابرو سے اب لیجئے مدد
تیغِ برّاں کی روانی دیکھ لی
نہ خنجر پاس ہے انکے نہ وہ شمشیر رکھتے ہیں
مگر ابرو کی جنبش میں عجب تاثیر رکھتے ہیں
مہر و نجوم پُر ضیا عکس جمال یارِ من
درہمہ چیز برملاعکسِ جمالِ یارمن
’’شمیم الانوار‘‘ حضرت کے مجموعہ کلام سے نمونے ازخروارے۔
شرک ہر چند برملا تو نہیں
دیکھو دل میں وہ چھپ گیا تو نہیں
دل ٹھکانے نہیں ہے کیا باعث
وہ کسی زلف میں پھنسا تو نہیں
خود سروں کے وہ قصے کہتے ہیں
وہ ہمارا ہی ماجرا تو نہیں
دل کو وہ توڑتے ہیں یہ کہہ کر
بتکدہ خانہء خدا تو نہیں
پھر سوئے کعبہ لے چلا ہے دل
دیکھئے اس میں کچھ دغا تو نہیں
واں بدلتی ہے قلب کی حالت
خاک یثرب کی کیمیا تو نہیں
نہ خنجر پاس ہے اُن کے نہ وہ شمشیر رکھتے ہیں
مگر ابرو کی جنبش میں عجب تاثیر رکھتے ہیں
نہیں رہتا ہے دل قبضے میں ان کی ہمکلامی سے
نہیں معلوم باتوں میں وہ کیا تسخیر رکھتے ہیں
کہیں شوریدگی میں دل نہ بھٹکے اس لئے اسکو
کسی کی زلف کا ہم بستہء زنجیر رکھتے ہیں
کماں کے سامنے چلّے کا جھکنا دامِ مقصد ہے
جوانانِ سعادت مند قدرِ پیر رکھتے ہیں
قصور اپنا ہے ورنہ ساکنانِ شہرِ خاموشاں
زبانِ حال پر ہر قسم کی تقریر رکھتے ہیں
جہاں میں ہیں جلوے عیاں کیسے کیسے
ہیں اسرار دل میں نہاں کیسے کیسے
الٰہی یہ دل ہے کہ مہماں سرا ہے
چلے آتے ہیں کارواں کیسے کیسے
نہ ہوں تہلکے ملکِ دل میں تو کیا ہو
مسلط ہیں واں حکمراں کیسے کیسے
ہوئی خانہء دل کی تعمیر مٹ کر
بنے لامکاں میں مکاں کیسے کیسے
ہوئے کیا وہ سب کس نے چن چن کے توڑے
تھے گلشن میں گُل، باغباں کیسے کیسے
ذرا دیکھو انورؔ کہ انوار غیبی
نہاں کس قدر ہیں عیاں کیسے کیسے
خنجر ابرو سے اب لیجئے مدد
تیغ براں کی روانی دیکھ لی
واعظا ہم نے توفیض عشق سے
قہر میں بھی مہربانی دیکھ لی
رہے خوب لطف وکرم پہلے پہلے
عدم میں بھی تھے محترم پہلے پہلے
ہمارے لئے اب غذا وہ بنی ہے
جسے ہم سمجھتے تھے سم پہلے پہلے
دیکھئے جس کو ہے بس نام وری کا پابند
رہے وہ عنقا جو ہو خلقت سے جد انام سے دور
زندگی سولی پہ منصور نے کاٹی الحق
اہلِ تحقیق کو ہے دارِ اماں دار کے پاس
بر جمال خویشتن دیوانہ سازی خویش را
شمع خود باشی وخود پروانہ سازی خویش را
عاشقِ زارے گہے وزجاں براری ہائے ہوئے
گاہ جاں باشی گہے جانا نہ سازی خویش را
کیست کو در بندِ عشقِ خویش آرد مرترا
بہرِ صید خویش دام ودانہ سازی خویش را
آں کراز ہرہ کہ دعوائے شناسائی کند
دیدہ ودانستہ چوں بیگانہ سازی خویش را
گر طمع داری دلا گنجینہء اسرار را
پیشترمی بایدت ویرانہ سازی خویش را
مستی خمخانہء روز الستت بس نبود
تاکہ مست جرعہء پیمانہ سازی خویش را
توہمائے دولتی آشیانت بے نشاں
پس چہ افتادت کہ مرغ خانہ سازی خویش را
انوراؔ با آنکہ بیروں نامدی از خویشتن
تابکے در غیریت افسانہ سازی خویش را
ہر کسے تو رازے دیگرے
نازو انداز ونیازے دیگرے
عاشقاں رادر بیانِ راز ہاست
ہر حقیقت را مجازے دیگرے
مہرو نجوم پُرضیاء عکسِ جمالِ یارِمن
درہمہ چیز برملا عکسِ جمالِ یارِمن
پردہ ہمیں کہ برشود صبر وشکیب دار بود
کرد بہ فتنہ مبتلا عکس جمالِ یارِمن
بہر نظارہ جوق جوق گشتہ رواں زِفرطِ شوق
کرد قیامنے بپا عکسِ جمالِ یارِمن
ہوش وحواس عالمے برد بیک کرشمے
روح فزاو دل ربا عکسِ جمالِ یا رِمن
جُز تو بناشد مطلب زحقیرے
اینست مارا مقصود اقصٰے
انت قریب منی ولکن
باتقرب ماذا یفعل اعمی
اس سلسلہ میں ’’قصیدہ انوار احمدی‘‘ کا تذکرہ خاص طور پر نہایت ضروری ہے۔ یہ حضرت کا ادبی شہکار‘ قدسیانہ جذبات کا آئینہ دار، آب وہوا مدینہ کی پیداوار‘ عشقِ نبی سے سرشار ہے۔ نعتِ نبی میں کعب بن زہیرؓ نے ’’بانت سعاد‘‘ امام شرف الدین ابو محمد البوصیریؒ نے بردہ شریف جیسے بڑے بلند پایہ قصائدکہے۔ حضرت مولانا نے بھی اردو زبان میں اُن ہی بنیادوں پر قصیدہ کے اکسٹھ بند کہے۔ ساتھ ہی حدیث وقرآن کی روشنی میں شرح بھی فرمادی جو تین سو تیس صفحات پر مشتمل ہے۔ مدینہ آپ سے کیا چھوٹا قصیدہ بھی نامکمل چھوٹ گیا۔ مکہ پہونچے تو حضرت عارف باللہ حاجی امداد اللہؒ کی صحبت ملی۔ راہ سلوک طے کرنے میں لگ گئے۔ اجلہ علماء ہند کے پیرنے بڑی توجہ سے قصیدہ اور اس کی شرح سُنی۔ ’’انوار احمدی‘‘ سے عام استفادہ کی غرض طباعت کے لئے ارشاد فرمایا ونیز تقریظ میں یہ فرمایا :
جاء بالنور فوقہ نور
المصنف، کاسمہ انوار
ارجو ان تنفع دلائلہ
وتطمئن القلوب بالاذکار
تفصیل کی اجمال یہ ہے کہ اسلام شعر وشاعری کو کلیتاً وقیع نظر سے نہیں دیکھتا۔ کلام اللہ نثر میں ہے اور اس کی آیت الشعراء یتبعہم الغاون عدم جواز کو ظاہر کرتی ہے۔ حضرت نے عالم با عمل ہونے کے باجود شاعری کو اپنا یا اور اس کے جواز کو ثابت کربتلایا۔ آپ نے یوں فرمایا ؎
لکھا اسکو نظم میں ہر چند میں شاعر نہیں
کیونکہ خوش ہوتے تھے اکثر نظم ہی سے شاہِ دیںؐ
اس کی شرح میں صحاح ستہ سے ترمذی ونسائی کی حدیث جس کی حضرت انسؓ نے روایت کی ہے پیش فرمایا کہ آنحضرت ﷺ قضاء عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ میں داخل ہورہے تھے۔ آگے آگے ابن رواحہؓ اشعار پڑھتے جارہے تھے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے ٹوکا۔ اے ابن رواحہؓ رسولِ اکرم کے سامنے حرم محترم میں تم اشعار پڑھتے ہو۔ رسول اللہﷺنے فرمایا۔ اے عمرؓ ان کو ان کے حال پر چھوڑدو۔ ان کے اشعار کفار کے دلوں پر تیرسے تیز تر سرایت کرتے ہیں۔ ونیزمشکوۃ شریف سے حدیث بیان فرمائی کہ کعب بن مالکؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ!حق تعالی نے شعر کی برائی میں آیت شریف نازل فرمائی یعنی اب شعر کا لکھنا درست نہ ہو گا۔
رسول اللہ ﷺ نے ’’المومن یجاھد بسیفہ ولسانہ الذی نفسی بیدہ لکانما ترامونھم بہ‘‘
ارشاد فرمایا: ایمان والے تلوار اور زبان سے جہاد کرتے ہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ کفّار کے مقابل تمہارا شعر کہنا مثل تیر چلانے کے ہے۔
علاوہ ازیں مواہب لدنیہ کے حوالے سے کعب بن زہیرؓ کا واقعہ تحریر فرمایا کہ کعب اپنے قصور سے تائب حاضر حضورؐ ہوئے اور اپناقصور بخشوانے پر رسالت پناہ کی شان میں قصیدہ کہہ سنایا۔
آنحضرت ﷺ نے جسم اقدس سے رداء مبارک نکال کر کعب کو دی اور مصرعہء ثانی میں جو انہوں نے سیوف الہند کہا تھا سیوف اللہ کی اصلاح فرمائی۔
حضرت مولانا نے ان احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اشعار با ثواب کے کہنے سننے اور اصلاح دینے کا جواز ثابت کردیا۔ اور خوش ہو کر شاعر کو شعر کا صلہ دینا سنت نبویؐ قرار دیا۔ علی ہذا روح الامین کا شاعرِحسان بن ثابتؓ کا ہم نوا ہونا اور مسجد نبوی میں اشعار سنانے ان کے لئے منبر کا رکھوانا بہت ساری دلیلیں عالمانہ انداز میں آپ نے بیان فرمائیں۔ طوالت کے باعث سب کوچھوڑتے قصیدہ کے چند بند ہدیہء ناظرین کئے جاتے ہیں۔ یقینا ایمان افروز اور حب نبی کو دوبالا کرنے والے ثابت ہوں گے۔
ٹھیرا کفارہ گناہوں کا جو ذکرِ اولیاء
جن کا ذکرِ پاک ہے گویا کہ ذکرِ کبریا
رفعِ ذکر پاک ثابت ہے کلا م اللہ سے
مطمئن ہوتے ہیں دل ذکرِ شہِ لولاہ ہے
ہے درود پاک ہی ذکرِ شہ عالی مقام
ہر طرح سے جس کا ہے خالق کو منظور اہتمام
بھیجتا ہے خود درود اس فخرِ عالم پر مدام
اور فرشتے دائماً مشغول ہیں جس میں تمام
کیسی طاعت ہوگی وہ جسمیں ہو خود حق بھی شریک
ہے جو طاعت سے بری جس کا نہیں کوئی شریک
دفع ہوں سب ہم وغم جو کوئی پڑھتا ہو مدام
نکلیں اسکی وجہ سے دونوں جہانکے سارے کام
جو پڑ ھے دائم رہے منصور و محبوبِ اَنام
ذکرِ خالق اور دعا ذکرِ نبیؐ کے سات ہے
کیا صلوۃ احمدیؐ بھی افضل الطاعات ہے
عرض کی خاتوں نے حضرت مہر ہو اوّل ادا
بولے یارب مہر کیا دوں حق تعالی نے کہا
صاحبِ لولاہؐ پر پڑہ لو درود باصفا
نعت وہ ہے جسکا حضرتؐ نے کیا خود اہتمام
حق تعالی نے لیا جملہ نبیوںؐ سے یہ کام
ہو جو محروم اس سے ہے ایمان اُسکا ناتمام
اور جو دشمن ہو تو اُسکے کفر میں پھر کیا کلام
کی بذاتِ خود خدا نے نعت جب محبوبؐ کی
پھر ثنا دل سے کریں کیونکہ نہ سب محبوبؐ کی
حضرت معاذؔؓ سے روایت ہے فرمایا آنحضرتؐ نے کہ نبیوں کا ذکر ایک قسم کی عبادت ہے۔ اور ذکر صالحین کا گناہوں کا کفارہ ہے اور ذکر موت کا صدقہ ہے اور یاد کرنا قبر کا جنت سے تم کو نزدیک کرتا ہے۔
یعنی جب خالق نے چاہا غیب کا اظہار ہو
اور عبودیت کا ساری خلق میں اقرار ہو
فیض بخش کن فکاں گنجینئہ اسرار ہو
کنجِ تاریک عدم جولانگہِ انوار ہو
نورسے اپنے کیا اک نور پیدا بے مثال
اور محمدؐ اس رکھا نام حمداً لا یزال
الغرض اس نور سے پیدا کیا عالم تمام
لکھا پھر ہر جائے اپنے نام کے ساتھ ان کا نام
نام ان کا لیکے نبیوں نے نکالے اپنے کام
دی یہ شہرت انکو تا جانیں انہیں سب خاص و عام
پھر کیا ایک شان سے آدم میں ان کو جلوہ گر
رکھا پیشانی میں تا ہو سجدہ گاہ بوالبشر
پھر ملائک سے کرائے سجدے باصد کروفر
اور لیا اقرار سب پیغمبروں سے معتبر
کہ وہ ختم الانبیاء اور خیر خلق اللہ ہیں
ہیں وہ شمس الانبیاء گر انبیاء سب ماہ ہیں
٭٭٭