حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کرامات
آپ کے کرامات بہت ہیں ان میں سے چند مشہور کرامتیں ذکر کی جاتی ہیں :
بیہقی و ابو نعیم وغیرہ محدثین نے بطریقِ معتبر روایت کیا کہ امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اثناء خطبہ میں تین مرتبہ فرمایا:یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلْ حاضرین مُتَحَیِّر ومُتَعَجِّب ہوئے کہ اَثناء ِخطبہ میں یہ کیا کلام ہے۔ بعد کو آپ سے دریافت کیا گیا کہ آج آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ فرماتے فرماتے یہ کیا کلمہ فرمایا ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ لشکرِ اسلام جو ملکِ عجم میں مقامِ نِہاوَنْد میں کفار کے ساتھ مصروفِ پیکارہے میں نے
دیکھا کہ کفار اس کو دونوں طرف سے گھیر کرمارنا چاہتے ہیں۔ ایسی حالت میں مَیں نے پکار کر کہہ دیا کہ اے ساریہ! جبل۔ یعنی پہاڑ کی آڑلو۔ یہ سن کر لوگ منتظر رہے کہ لشکر سے کوئی خبرآئے تو تفصیلی حال دریافت ہو۔ کچھ عرصہ کے بعد ساریہ کا قاصدخط لے کر آیا اس میں تحریر تھا کہ جمعہ کے روز د شمن سے مقابلہ ہورہا تھا خاص نماز جمعہ کے وقت ہم نے سنا: ”یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلْ”یہ سن کر ہم پہاڑ سے مل گئے اور ہمیں دشمن پر غلبہ حاصل ہوا یہاں تک کہ دشمن کو ہزیمت ہوئی۔ (1)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سبحان اللہ! خلیفۂ اسلام کی نظر مدینۂ طیَّبہ سے نِہاوَنْدمیں لشکر کو ملاحظہ فرمائے اور یہاں سے ندا کرے تو لشکر کو اپنی آواز سنائے نہ کوئی دوربین ہے نہ ٹیلیفون ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی کا صدقہ ہے۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
ابوا لقاسم نے اپنی ”فوائد” میں روایت کی کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص آیا، آپ نے اس کانام دریافت فرمایا:کہنے لگا: میرانام جمرہ (اخگر) ہے۔فرمایا :کس کا بیٹا؟ کہا:ابن شہاب(آتش پارہ ) کا، فرمایا :کن لوگوں میں سے ہے؟ کہا :حرقہ (سوزش) میں سے، فرمایا : تیرا وطن کہاں ہے ؟کہا :حرہ ( تپش) ،فرمایا: اس کے کس مقام پر ؟کہا: ذات لظٰی (شعلہ وار) میں ،فرمایا:اپنے گھر والوں کی خبر لے سب جل گئے، لوٹ کر گھر آیا تو سارا کنبہ جلا پایا۔(2)
ابو الشیخ نے ”کتاب العظمۃ” میں روایت کی ہے کہ جب مصرفتح ہوا تو ایک روز اہلِ مصر نے حضرت عمر وبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ اے امیر! ہمارے دریائے نیل کی ایک رسم ہے جب تک اس کو ادانہ کیاجائے دریاجاری نہیں رہتا انہوں
نے دریافت کیا:کیا؟ کہا: اس مہینے کی گیارہ تاریخ کو ہم ایک کنواری لڑکی کو اس کے والدین سے لے کر عمدہ لباس اور نفیس زیور سے سجاکردریائے نیل میں ڈالتے ہیں۔ حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اسلام میں ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا اور اسلام پرانی واہیات رسموں کو مٹاتا ہے۔ پس وہ رسم موقوف رکھی گئی اور دریا کی روانی کم ہوتی گئی یہاں تک کہ لوگوں نے وہاں سے چلے جانے کا قصد کیا، یہ دیکھ کر حضرت عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں تمام واقعہ لکھ بھیجا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں تحریر فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔بے شک اسلام ایسی رسموں کو مٹاتا ہے۔ میرے اس خط میں ایک رقعہ ہے اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا۔ عمرو بن عاص کے پاس جب امیر المومنین کا خط پہنچا اور انہوں نے وہ رقعہ اس خط میں سے نکالا تو اس میں لکھاتھا:”از جانب بندۂ خدا عمر امیرا لمومنین بسوئے نیلِ مصر بعد ازحمدو صلوٰۃ آنکہ اگر تو خود جاری ہے تو نہ جاری ہو اور اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا تو میں اللہ واحد قہار سے درخواست کرتاہوں کہ تجھے جاری فرمادے۔”عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈالا ایک شب میں سولہ گز پانی بڑھ گیااور بھینٹ چڑھانے کی رسم مصر سے بالکل موقوف ہوگئی۔ (1)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب فصل فی کراماتہ، ص۹۹
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب فصل فی کراماتہ، ص۱۰۰
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عمر بن الخطاب فصل فی کراماتہ،ص۱۰۰
2۔۔۔۔۔۔ احیاء العلوم،کتاب کسرالشہوتین،بیان طریق الریاضۃ…الخ،ج۳،ص۱۱۱(وفیہ سبع
لقم او تسع لقم۔ واللہ تعالٰی اعلم)