یہ میرے جدِّ کریم حضور مخدوم الملت سرکار مُحَدِّثِ اعظمِ ہند علیہ الرحمہ ہیں، آپکی علمی جلالت فقہی بصیرت علوم احادیث و تفاسیر پر کامل دسترس تصانیف کثیرہ وماھنامہ اشرفی کے تحقیقی نوادرات پرورشِ لوح وقلم کی راہ میں زندہ ثبوت ہیں ، آپ کا ترجُمۂ قرآن معارف القُرآن کو اعلٰیحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نےدیکھ کر فرمایاتھا کہ ،، شہزادے! اردو میں قرآن لکھا ہے،،،
آپ کو ایک لاکھ سے زائد احادیث مع اسناد صحیحہ یاد تھیں، اور بالاتفاق اکابرین و معاصرین نے آپکو ”محدِّث اعظم ہند ،، کے لقب سے سرفراز فرمایا !
خطابت میں آپ یکتائے زمانہ تھے ، متحدہ ہندوستان کے تمام بڑے بڑے اجلاس و کانفرنس میں یعنی بمبئی سے کراچی پشاور سے سلہٹ تک حیدراباد سے جوناگڑھ تک ، کابل سے کولمبو تک داتا دربارسےاجمیرشریف تک بدایوں شریف سے پٹنہ تک اور کچھوچھا سے مارھرہ تک، بریلی سے پیلی بھیت تک ،اعظم گڑھ سے علی گڑھ و،سورت سے سرھند تک کلکتہ سے دلی تک،مراداباد سے احمدآباد تک بنگلورسے بلاری وبستی سے رائے پور اور کانپور سے ناگپورتک کشمیر سے کیرالا و مدراس تک غرضکہ شمال و جنوب کے تمام مراکز اہلسنت کے عظیم اجتماعات میں آپکا خطبۂ و خطاب کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا رہا! 1946 میں بنارس کی تاریخ ساز
سُنّی کانفرنس زندہ جاوید مثال ہے !
فقیر اشرفی نے اپنے اکابرین و اساطین سے مثلاً حضور مفتئ اعظم ہند، حضور سید العلما آل مصطفٰے مارہروی ،حضور حافظ ملت، حضور مجاہدِ ملت، حضرت ضیاء الدین مہاجر مدنی ، حضرت مفتئ اعظم کانپور، حضرت عبد المصطفٰی ازھری کراچی، حضرت عبدالمصطفی اعظمی ،حضرت مفتئ اعظم ناگپور، حضرت مفتی وقارالدین کراچی ، حضرت مفتی عبدالغفور ہزاروی،حضرت علامہ سید محمود رضوی حزب الاحناف لاہور، حضرت برہان الملت جبلپور ،حضرت علامہ عبدالحکیم شاہجہانپوری، لاہوری، حضرت شمسُ العُلماء جونپوری، حضرت صدرالعلماء میرٹھی حضرت حکیم موسٰی امرتسری ،حضرت علامہ سلیمان بھاگلپوری حضرت مفتی محمد حسین نعیمی لاہوری علامہ مفتی تقی الدین ملباری ،حضرت خطیب مشرق الٰہ بادی حضرت سرکار کلاں زیب سجادہ کچھوچھا شریف ، حضرت نصیرالملت بہاری ، مفتئ اعظم گجرات مفتی عزیزالرحمٰن احمدابادی
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت فقیہ العصر حامد فقیہ بھیونڈی حضرت فقیراللہ شاہ لاہوری حضرت مفتی حبیب اللہ مرادابادی حضرت اجمل العُلماء سنبھلی حضرت مفتی یونس نعیمی مرآدابادی حضرت مفتی شریف الحق امجدی وغیرھم علیھم الرحمت والرضوان کی زبان سے سنا تو یہی سنا کہ متحدہ ہندوستان میں سواد اعظم اھلسنت کے علی الاطلاق ” حَکَم ،، حضور محدثِ اعظم ہیں ! جو عطائی و بخشندہ بصیرت ،حکمت و دانائی سے لاینحل قومی مسائل، جماعتی اختلافات و فقہی الجھاؤ ، دینی و تعلیمی مراکز و مدارس کے گُنجَلَک افتراق اپنے ناخنِ تدبیر سےاس طرح حل فرماتے کہ فریقین نہ صرف مطمئن ہوتے بلکہ سارے اختلافات بھلا کر نمدیدہ نمدیدہ گلے ملتےاور سراپا ممنونِ کرم نظر آتے!
حضور سیدالعلماء آل مصطفٰی قادری مارہروی ہمیشہ فرماتے کہ حضور محدث اعظم کا طریقہ تھا کہ وہ ہر فریق کی مکمل و مدلل باتوں اور سارے موقف کو یکسوئ سے سُنتے اور پھر بالغ نظری عرفانی قوت و اصابتِ فکری پر مشتمل حکیمانہ خطاب فرماتے ہوئے اپنا فیصلہ بحیثیت حَکَم جب سُناتے توفریقین نعرہائے تحسین کیساتھ آمنْا صدقنا کی صدائیں دیتے نظر آتے ! ذالک فضل اللہ یوتیئہ مَن یَْشاءُ! سیدُالعلماء اکثر فرماتے کہ صرف کچھوچھا شریف ہی نہیں پورا سواد اعظم اپنے’ حَکَم ‘ سے محروم ہو چکاہے
اللہ کریم سرکار محدثِ اعظم ہند کے فیوض و برکات سے ہم سبکو مستفیض فرمائےاور ان کے نقوشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہِ سیدالمُرسلین صلی اللہ علیہ وسلم !
بندۂ عاصی و فقیر اشرفی سید محمد جیلانی اشرف نبیرۂ حضور محدثِ اعظم ہند ( علیہ الرحمہ)