حیض و نفاس و جنابت کا بیان

بالغہ عورت کے آگے کے مقام سے جو خون عادت کے طور پر نکلتا ہے اور بیماری اوربچہ پیدا ہونے کے سبب سے نہ ہو اس کو حیض کہتے ہیں۔ اور جو خون بیماری کی وجہ سے آئے۔ اس کو استحاضہ کہتے ہیں۔اور بچہ ہونے کے بعد جو خون آتا ہے وہ نفاس کہلاتا ہے۔  (نورالایضاح،کتاب الطہارت،باب الحیض والنفاس۔۔۔إلخ،ص۴۱)
مسئلہ:۔حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور تین راتیں یعنی پورے بہتر گھنٹے ہے جو خون اس سے کم مدت میں بند ہو گیا وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے اور حیض کی مدت زیادہ سے زیادہ دس دن اور دس راتیں ہیں اگر دس دن اور دس رات سے زیادہ خون آیا تو اگر یہ حیض پہلی مرتبہ اسے آیا ہے تو دس دن تک حیض مانا جائے گا اس کے بعد استحاضہ ہے اور اگر پہلے اس عورت کو حیض آچکے ہیں اور اس کی عادت دس دن سے کم تھی تو عادت سے جتنا
زیادہ ہوا وہ استحاضہ ہے مثال کے طور پر یہ سمجھو کہ اس کو ہر مہینے میں پانچ دن حیض آنے کی عادت تھی اب کی مرتبہ دس دن آیا تو دس دن حیض ہے اور اگر بارہ دن خون آیا تو عادت والے پانچ دن حیض کے مانے جائیں گے اور سات دن استحاضہ کے اور اگر ایک حالت مقرر نہ تھی بلکہ کبھی چار دن کبھی پانچ دن حیض آیا کرتا تھا تو پچھلی مرتبہ جتنے دن حیض کے تھے وہی اب بھی حیض کے مانے جائیں گے۔ اور باقی استحاضہ مانا جائے گا۔         (الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۲۳)
مسئلہ:۔کم سے کم نو برس کی عمر سے عورت کو حیض شروع ہوگا۔ اور حیض آنے کی انتہائی عمر پچپن سال ہے۔ اس عمر والی عورت کو آئسہ (حیض و اولاد سے نا امید ہونے والی) کہتے ہیں۔ نو برس کی عمر سے پہلے جو خون آئے گا وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے یوں ہی پچپن برس کی عمر کے بعد جو آئے گا وہ بھی استحاضہ ہے۔ لیکن اگر کسی عورت کو پچپن برس کی عمر کے بعد بھی خالص خون بالکل ایسے ہی رنگ کا آیا جیسا کہ حیض کے زمانے میں آیا کرتا تھا تو اس کو حیض مان لیا جائے گا۔         (الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۲۴)
مسئلہ:۔حمل والی عورت کو جو خون آیا وہ استحاضہ ہے۔         (الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۲۴)
مسئلہ:۔دو حیضوں کے درمیان کم سے کم پورے پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے یوں ہی نفاس اور حیض کے درمیان بھی پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے تو اگر نفاس ختم ہونے کے بعد پندرہ دن پورے نہ ہوئے تھے کہ خون آگیا تو یہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے۔         (الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۲۴)
مسئلہ:۔حیض کے چھ رنگ ہیں۔ (۱)سیاہ (۲)سرخ(۳) سبز(۴)زرد 
(۵)گدلا (۶)مٹیالا’ خالص سفید رنگ کی رطوبت حیض نہیں۔         (ردالمحتار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض،ج۱،ص۵۳۰)
مسئلہ:۔نفاس کی کم سے کم کوئی مدت مقرر نہیں ہے بچہ پیدا ہونے کے بعد آدھ گھنٹہ بعد بھی خون آیا تو وہ نفاس ہے اور نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن رات ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الثانی فی النفاس ، ج۱،ص۳۷ وفتح القدیر، کتاب الطہارۃ، باب فصل فی النفاس، ج۱،ص۱۸۸۔۱۹۰)
مسئلہ:۔کسی عورت کو چالیس دن سے زیادہ خون آیا تو اگر عورت کے پہلی ہی بار بچہ پیدا ہوا ہے۔ یا یہ یاد نہیں کہ اس سے پہلے بچہ پیدا ہونے میں کتنے دن خون آیا تھا تو چالیس دن رات نفاس ہے۔ باقی استحاضہ اور جو پہلی عادت معلوم ہو تو عادت کے دنوں میں نفاس ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ استحاضہ ہے جیسے تیس دن نفاس کا خون آنے کی عادت تھی مگر اب کی مرتبہ پینتالیس دن خون آیا تو تیس دن نفاس کے مانے جائیں گے اور پندرہ دن استحاضہ کے ہوں گے۔     (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الثانی فی النفاس ، ج۱،ص۳۷)
حیض و نفاس کے احکام:۔حیض و نفاس کی حالت میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا حرام ہے۔ ان دونوں میں نمازیں معاف ہیں ان کی قضا بھی نہیں۔ البتہ روزوں کی قضادوسرے دنوں میں رکھنا فرض ہے اور حیض و نفاس والی عورت کو قرآن مجید پڑھنا حرام ہے خواہ دیکھ کر پڑھے یا زبانی پڑھے۔ یوں ہی قرآن مجید کا چھونا بھی حرام ہے۔ ہاں اگر جزدان میں قرآن مجید ہو تو اس جزدان کو چھونے میں کوئی حرج نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔قرآن مجید پڑھنے کے علاوہ دوسرے تمام و ظائف کلمہ شریف درود شریف
وغیرہ حیض ونفاس کی حالت میں عورت بلا کراہت پڑھ سکتی ہے بلکہ مستحب ہے کہ نمازوں کے اوقات میں وضو کر کے اتنی دیر تک درود شریف اور دوسرے وظائف پڑھ لیا کرے جتنی دیر میں نماز پڑھ سکتی تھی تاکہ عادت باقی رہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں ہمبستری یعنی جماع حرام ہے۔ بلکہ اس حالت میں ناف سے گھٹنے تک عورت کے بدن کو مرد اپنے کسی عضو سے نہ چھوئے کہ یہ بھی حرام ہے ہاں البتہ ناف سے اوپر اور گھٹنا کے نیچے اس حالت میں عورت کے بدن کو بوسہ دینا جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۹)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں عورت کو مسجد میں جانا حرام ہے۔ ہاں اگر چور یا درندے سے ڈر کر یا کسی بھی شدید مجبوری سے مجبور ہو کر مسجد میں چلی جائے تو جائز ہے مگر اس کو چاہے کہ تیمم کر کے مسجد میں جائے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔حیض و نفاس والی عورت اگر عیدگاہ میں داخل ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں اگر مسجد کے باہر رہ کر اور ہاتھ بڑھا کر مسجد سے کوئی چیز اٹھا لے یا مسجد میں کوئی چیز رکھ دے تو جائز ہے۔                 (بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۸۹)
مسئلہ:۔حیض و نفاس والی کو خانہ کعبہ کے اندر جانا اور اس کا طواف کرنا اگرچہ مسجد حرام کے باہر سے ہو حرام ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں بیوی کو اپنے بستر پر سلانے میں غلبہ شہوت یا اپنے کو قابو میں نہ رکھنے کا اندیشہ ہو تو شوہر کے لئے لازم ہے کہ بیوی کو اپنے بستر پر نہ سلائے بلکہ اگر گمان غالب ہو کہ شہوت پر قابو نہ رکھ سکے گا تو شوہر کو ایسی حالت میں بیوی کو اپنے ساتھ سلانا حرام اور گناہ ہے۔    (بہارشریعت،ج۱،ح۲،ص۹۱)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں بیوی کے ساتھ ہمبستری کو حلال سمجھنا کفر ہے اور حرام سمجھتے ہوئے کر لیا تو سخت گناہگار ہوا۔ اس پر توبہ کرنا فرض ہے۔ اور اگر شروع حیض و نفاس میں ایسا کر لیا تو ایک دینار اور اگر قریب ختم کے کیا تو نصف دینار خیرات کرنا مستحب ہے تاکہ خدا کے غضب سے امان پائے۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الطہارۃ ، باب فی الحیض ، مطلب :لو افتی مفت بشیئ من ھذہ الاقوال فی مواضع الضرورۃ، ج۱،ص۵۴۲۔۵۴۳)
مسئلہ:۔روزے کی حالت میں اگر حیض و نفاس شروع ہوگیا تو وہ روزہ جاتا رہا اس کی قضا رکھے فرض تھا تو قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔نفاس کی حالت میں عورت کو زچہ خانہ سے نکلنا جائز ہے یوں ہی حیض و نفاس والی عورت کو ساتھ کھلانے اور اس کا جھوٹا کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ پاکستان میں بعض جگہ جاہل عورتیں حیض و نفاس والی عورتوں کے برتن الگ کردیتی ہیں بلکہ ان برتنوں اور حیض و نفاس والی عورتوں کو نجس جانتی ہیں۔ یاد رکھو کہ یہ سب ہندوؤں کی رسمیں ہیں۔ ایسی بیہودہ رسموں سے مسلمان عورتوں مردوں کو بچنا لازم ہے۔ اکثر عورتوں میں رواج ہے کہ جب تک چلہ پورا نہ ہوجائے اگر چہ نفاس کا خون بند ہو چکا ہو وہ نہ نماز پڑھتی ہیں نہ اپنے کو نماز کے قابل سمجھتی ہیں۔ یہ بھی محض جہالت ہے شریعت کا حکم یہ ہے کہ جیسے ہی نفاس کا
خون بند ہو اس وقت سے نہا کر نماز شروع کردیں اگر نہانے سے بیماری کا اندیشہ ہو تو تیمم کرکے نماز پڑھیں۔ نماز ہرگز ہرگز نہ چھوڑیں۔ (الردالمحتار ،کتاب الطہارۃ ، مطلب :لو افتی مفت ۔۔۔الخ، ج۱،ص۵۳۴)
مسئلہ:۔حیض اگر پورے دس دن پر ختم ہوا تو پاک ہوتے ہی اس سے جماع کرنا جائز ہے اگر چہ اب تک غسل نہ کیا ہو لیکن مستحب یہ ہے کہ نہانے کے بعد صحبت کرے۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۹)
مسئلہ:۔اگر دس دن سے کم میں حیض بند ہو گیا تو تاوقتیکہ غسل نہ کرے یا وہ وقت نماز جس میں پاک ہوئی نہ گزر جائے صحبت کرنا جائز نہیں۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطہارۃ ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۹)
مسئلہ:۔حیض و نفاس کی حالت میں سجدۂ  تلاوت بھی حرام ہے اور سجدہ کی آیت سننے سے اس پر سجدہ واجب نہیں۔ (ردالمحتارمع الدرالمختار، کتاب الطہارۃ، باب فی الحیض،مطلب: لوافتی… الخ، ج۱،ص۵۳۲)
مسئلہ:۔رات کو سوتے وقت عورت پاک تھی اور صبح کو سو کر اٹھی تو حیض کا اثر دیکھا تو اسی وقت سے حیض کا حکم دیا جائے گا۔ رات سے حائضہ نہیں مانی جائے گی۔         (الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض، ج۱،ص۵۳۳)
مسئلہ:۔حیض والی صبح کو سو کر اٹھی اور گدی پر کوئی نشان حیض کا نہیں تو رات ہی سے پاک مانی جائے گی۔     (الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض، ج۱،ص۵۳۳)
استحاضہ کے احکام:۔استحاضہ میں نہ نماز معاف ہے نہ روزہ۔ نہ ایسی عورت سے صحبت حرام۔ استحاضہ والی عورت نماز بھی پڑھے گی۔ روزہ بھی رکھے گی۔ کعبہ میں بھی داخل ہوگی۔ طواف کعبہ بھی کرے گی۔ قرآن شریف کی تلاوت بھی کر سکے گی وضو کر کے قرآن شریف کو ہاتھ بھی لگا سکے گی اور اسی حالت میں شوہر اس سے ہمبستری بھی کر سکے گا۔         (الدرالمختار،کتاب الطہارۃ ،باب فی الحیض، ج۱،ص۵۴۴)
جنُب کے احکام:۔ایسے مرد اور عورت کو جن پر غسل فرض ہوگیا ”جنُب” کہتے ہیں اور اس ناپاکی کی حالت کو ”جنابت” کہتے ہیں۔ جنب خواہ مرد ہو یا عورت جب تک غسل نہ کرے وہ مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا۔ نہ قرآن شریف پڑھ سکتا ہے۔ نہ قرآن دیکھ کر تلاوت کر سکتا ہے۔ نہ زبانی پڑھ سکتا ہے۔ نہ قرآن مجید کو چھو سکتا ہے نہ کعبہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ نہ کعبہ کا طواف کر سکتا ہے۔
(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الطہارۃ،مطلب یوم عرفۃ افضل، ج۱،ص۳۴۵۔۳۴۶)
مسئلہ:۔جنب کو ساتھ کھلانے اس کا جھوٹا کھانے اس کے ساتھ سلام و مصافحہ اور معانقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 
مسئلہ:۔جنب کو چاہے کہ جلد سے جلد غسل کرے کیونکہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس گھر میں تصویر اور کتا اور جنُب ہو۔
(کنزالعمال، کتاب المعیشۃ والعادات، باب فرع فی محظورات البیت والبناء، رقم۴۱۵۵۷،ج۱۵،ص۱۷۱)
    اسی طرح ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ فرشتے تین شخصوں سے قریب نہیں ہوتے۔ ایک کافر کا مردہ دوسرے خلوق (عورتوں کی رنگین خوشبو) استعمال کرنے والا تیسرے جنب آدمی مگر یہ کہ وضو کرے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الترجل ،باب فی الخلوق للرجال،رقم۴۱۸۰،ج۴،ص۱۰۹)
مسئلہ:۔حیض و نفاس والی عورت یا ایسے مرد و عورت جن پر غسل فرض ہے اگر یہ لوگ
(بہارشریعت،ج۱،ص۱۳۱)
قرآن شریف کی تعلیم دیں۔ تو ان کو لازم ہے کہ قرآن مجید کے ایک ایک لفظ پر سانس توڑ توڑکر پڑھائیں۔ مثلاً اس طرح پڑھائیں کہ الحمد پڑھ کر سانس توڑیں پھر ﷲ پڑ ھ کر سانس توڑ دیں پھر رب العالمین پڑھیں۔ ایک سانس میں پوری آیت لگا تار نہ پڑھیں۔ اور قرآن شریف کے الفاظ کو ہجے کرانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱،ص۳۸)
مسئلہ:۔قرآن مجید کے علاوہ اور دوسرے وظیفے کلمہ شریف’ درود شریف وغیرہ کو پڑھنا جنب کے لئے بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے جیسے کہ حیض و نفاس والی عورت کے لئے قرآن شریف کے علاوہ دوسرے تمام اذکار و وظائف پڑھنا جائز و درست بلکہ مستحب ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس، ج۱،ص۳۸)
معذور کا بیان:۔جس شخص کو کوئی ایسی بیماری ہوجیسے پیشاب کے قطرے ٹپکنے یا دست آنے۔ یا استحاضہ کا خون آنے کے امراض کہ ایک نماز کا پورا وقت گزر گیا۔ اور وہ وضو کے ساتھ نماز فرض ادا نہ کر سکا۔ تو ایسے شخص کو شریعت میں معذور کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ جب کسی نماز کا وقت آجائے تو معذور لوگ وضو کریں اور اسی وضو سے جتنی نمازیں چاہیں پڑھتے رہیں۔ اس درمیان میں اگر چہ بار بار قطرہ وغیرہ آتا ہے۔ مگر ان لوگوں کا وضو اس وقت تک نہیں ٹوٹے گا جب تک کہ اس نماز کا وقت باقی رہے۔ اور جیسے ہی نماز کا وقت ختم ہو گیا ان لوگوں کا وضو ٹوٹ جائے گا اور دوسری نماز کے لئے پھر دوسرا وضو کرنا پڑے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السادس،ومما یتصل بذلک احکام المعذور، ج۱،ص۴۰۔۴۱)
مسئلہ:۔جب کوئی شخص شریعت میں معذور مان لیا گیا تو جب تک ہر نماز کے وقت ایک بار بھی اس کا عذر پایا جاتا رہے گا وہ معذور ہی رہے گا جب اس کو اتنی شفا حاصل ہو جائے کہ ایک نماز کا پورا وقت گزر جائے اور اس کو ایک مرتبہ بھی قطرہ وغیرہ نہ آئے تو اب یہ شخص معذور نہیں مانا جائے گا۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السادس،ومما یتصل بذلک احکام المعذور، ج۱،ص۴۱)
مسئلہ:۔معذور کا وضو اس چیز سے نہیں جاتا جس کے سبب سے معذور ہے لیکن اگر کوئی وضو توڑنے والی دوسری چیز پائی گئی تو اس کا وضو جاتا رہے گا۔ جیسے کسی کو قطرے کا مرض ہے اور وہ معذور مان لیا گیا۔ تو نماز کے پورے وقت میں قطرہ آنے سے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن ہوا نکلنے سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔                     (بہار شریعت،ج۱،ح۲،ص۹۴)
مسئلہ:۔اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں قطرہ آجاتا ہے اور بیٹھ کر نماز پڑھنے میں قطرہ نہیں آتا تو اس پر فرض ہے کہ نماز بیٹھ کر پڑھا کرے اور وہ معذور نہیں شمار کیا جائے گا ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السادس،ومما یتصل بذلک احکام المعذور، ج۱،ص۴۱)
Exit mobile version