فرعون کو نجومیوں نے یہ خبر دی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہو گا جو تیری سلطنت کی بربادی کا سبب ہو گا۔ اس لئے فرعون نے اپنی فوجوں کو یہ حکم دے دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اس کو قتل کردیا جائے اسی مصیبت و آفت کے دور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو ان کی والدہ نے فرعون کے خوف سے ان کو ایک صندوق میں رکھ کر صندوق کو مضبوطی سے بند کر کے دریائے نیل میں ڈال دیا۔ دریا سے نکل کر ایک نہر فرعون کے محل کے نیچے بہتی تھی۔ یہ صندوق دریائے نیل سے بہتے ہوئے نہر میں چلا گیا۔ اتفاق سے فرعون اور اس کی بیوی ”آسیہ” دونوں محل میں بیٹھے ہوئے نہر کا نظارہ کررہے تھے۔ جب ان دونوں نے صندوق کو دیکھا تو خدام کو حکم دیا کہ اس صندوق کو نکال کر محل میں لائیں۔ جب صندوق کھولا گیا تو اس میں سے ایک نہایت خوبصورت بچہ نکلا جس کے چہرہ پر حسن و جمال کے ساتھ ساتھ انوار ِ نبوت کی تجلیات چمک رہی تھیں۔ فرعون اور آسیہ دونوں اس بچے کو دیکھ کر دل و جان سے اس پر قربان ہونے لگے اور آسیہ نے فرعون سے کہا کہ:۔
قُرَّتُ عَیۡنٍ لِّیۡ وَلَکَ ؕ لَا تَقْتُلُوۡہُ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَّ ہُمْ لَایَشْعُرُوۡنَ ﴿9﴾
(پ 20،القصص:9)
ترجمہ کنزالایمان:۔یہ بچہ میری اورتیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ بے خبر تھے۔
اس پورے واقعہ کو قرآن مجید نے سورہ طٰہٰ میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ترجمہ یہ ہے:۔
”ترجمہ کنزالایمان: جب ہم نے تیری ماں کو الہام کیا جو الہام کرنا تھا کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دے تو دریا اسے کنارے پر ڈالے کہ اسے وہ اٹھا لے جو میر ادشمن اور اس کا دشمن ہے۔ میں نے تجھ پر اپنی طرف کی محبت ڈالی اور اس لئے کہ تو میری نگاہ کے سامنے تیار ہو۔
چونکہ ابھی حضرت موسیٰ علیہ السلام شیر خوار بچے تھے۔ اس لئے ان کو دودھ پلانے والی کسی عورت کی تلاش ہوئی مگر آپ کسی عورت کا دودھ پیتے ہی نہیں تھے۔ ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ بے حد پریشان تھیں کہ نامعلوم میرا بچہ کہاں اور کس حال میں ہوگا؟ پریشان ہو کر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن ”مریم” کو جستجوئے حال کے لئے فرعون کے محل میں بھیجا۔ اور مریم نے جب یہ حال دیکھا کہ بچہ کسی عورت کا دودھ نہیں پیتا تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ میں ایک عورت کو لاتی ہوں شاید کہ یہ اُس کا دودھ پینے لگیں۔ چنانچہ ”مریم” حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو فرعون کے محل میں لے کر گئیں اور انہوں نے جیسے ہی جوش محبت میں سینے سے چمٹا کر دودھ پلایا تو آپ دودھ پینے لگے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اُن کا بچھڑا ہوا لال مل گیا۔ اس واقعہ کا تذکرہ قرآن مجید کی سورہ قصص میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوۡسٰی فٰرِغًا ؕ اِنۡ کَادَتْ لَتُبْدِیۡ بِہٖ لَوْلَاۤ اَنۡ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِہَا لِتَکُوۡنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿10﴾وَقَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیۡہِ ۫ فَبَصُرَتْ بِہٖ عَنۡ جُنُبٍ وَّ ہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ ﴿ۙ11﴾وَحَرَّمْنَا عَلَیۡہِ الْمَرَاضِعَ مِنۡ قَبْلُ فَقَالَتْ ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰۤی اَہۡلِ بَیۡتٍ یَّکْفُلُوۡنَہٗ لَکُمْ وَ ہُمْ لَہٗ نَاصِحُوۡنَ ﴿12﴾فَرَدَدْنٰہُ اِلٰۤی اُمِّہٖ کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا وَلَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوۡنَ ﴿٪13﴾ (پ20،القصص:10۔13)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور صبح کو موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہو گیا ضرور قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی اگر ہم نہ ڈھارس بندھاتے اس کے دل پر کہ اسے ہمارے وعدہ پر یقین رہے اور (اس کی ماں نے )اس کی بہن سے کہا اس کے پیچھے چلی جا تو وہ اسے دور سے دیکھتی رہی اور ان کو خبر نہ تھی اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں اس پر حرام کردی تھیں تو بولی کیا میں تمہیں بتادوں ایسے گھر والے کہ تمہارے اس بچہ کو پال دیں اور وہ اس کے خیر خواہ ہیں تو ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف پھیرا کہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور غم نہ کھائے اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام:۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام ”یوحانذ”اور باپ کا نام ”عمران”ہے۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام ”مریم”ہے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ وہ مریم نہیں ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ”مریم”حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن سے سینکڑوں برس بعد کو ہوئی ہیں۔
(صاوی ،ج ۳، ص ۴۶، ۴۵)
درسِ ہدایت:۔(۱)اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے تو دشمن سے وہ کام کرالیتا ہے جو دوست بھی نہیں کرسکتے۔ دیکھ لیجئے کہ فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون ہی کے گھر میں ہوئی۔
(۲)یہ بھی معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کی حفاظت فرماتا ہے تو کوئی بھی اُس کو نہ ضائع کرسکتا ہے نہ ضرر پہنچا سکتا ہے۔ غور کرو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کس طرح بہ حفاظت، صحت و سلامتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پھر اُن کی ماں کی گود میں پہنچا دیا۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)