یوں تو بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثنا میں قصائد لکھنے کی سعادت سے سرفراز ہوئے مگر دربارِ نبوی کے مخصوص شعراء کرام تین ہیں جو نعت گوئی کے ساتھ ساتھ کفار کے شاعرانہ حملوں کا اپنے قصائد کے ذریعہ دندان شکن جواب بھی دیا کرتے تھے۔
(۱) حضرت کعب بن مالک انصاری سلمیرضی اللہ تعالیٰ عنہ جو جنگ تبوک میں شریک نہ ہونے کی و جہ سے معتوب ہوئے مگر پھر ان کی توبہ کی مقبولیت قرآن مجید میں نازل ہوئی۔ ان کا بیان ہے کہ ہم لوگوں سے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ مشرکین کی ہجو کرو کیونکہ مومن اپنی جان اور مال سے جہاد کرتا رہتا ہے اور تمہارے اشعار گو یا کفار کے حق میں تیروں کی مار کے برابر ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سلطنت کے دور میں ان کی وفات ہوئی۔ (1)
(۲) حضرت عبداﷲ بن رواحہ انصاری خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے فضائل و مناقب میں چند احادیث بھی ہیں۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ”سید الشعراء” کا لقب عطا فرمایا تھا۔ یہ جنگ موتہ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔(2)
(۳) حضرت حسان بن ثابت بن منذر بن عمرو انصاری خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دربار رسالت کے شعراء کرام میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ یعنی یا اﷲ! حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ ان کی مدد فرما ۔اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب تک یہ میری طرف سے کفار مکہ کو اپنے اشعار کے ذریعہ جواب دیتے رہتے ہیں اس وقت تک حضرت جبریل علیہ السلام ان کے ساتھ رہا کرتے ہیں۔ ایک سو بیس برس کی عمر پا کر ۵۴ھ میں وفات پائی۔ ساٹھ برس کی عمر زمانہ جاہلیت میں گزاری اور ساٹھ برس کی عمر خدمت اسلام میں صرف کی۔ یہ ایک تاریخی لطیفہ ہے کہ ان کی اور ان کے والد ”ثابت” اور ان کے دادا ”منذر” اور نگر دادا ”حرام” سب کی عمریں ایک سوبیس برس کی ہوئیں۔(1)
(زرقانی جلد ۳ ص ۳۷۲ تا ۳۷۳)