فاعل کبھی اسم ظاہر ہوتاہے ۔جیسے:لَمَعَ الْبَرْقُ میں الْبَرْقُ اسے ”مظہر”بھی کہتے ہیں.
کبھی اسم ضمیر ہوتاہے خواہ بارز ہو یامستتر۔جیسے:ضَرَبْتُ میں تُ ضمیربارز فاعل ہے اورزَیْدٌ ضَرَبَ میں ھُوَ ضمیر مستتر فاعل ہے،اسے ”مضمر”بھی کہتے ہیں۔اور کبھی فاعل مصدر کی
تاویل میں ہوتاہے۔جیسے: أَعْجَبَنِیْ أَنْ تَجْتَھِدَ۔ اس میں أَنْ تَجْتَہِدَمصدر کی تاویل میں ہوکر فاعل واقع ہورہاہے۔اسی طرح بَلَغَنِیْ أَنَّکَ عَالِمٌ۔اس میں أَنَّ حر ف مشبہ بالفعل اپنے اسم اور خبر کے ساتھ مل کر فاعل بن رہا ہے۔
فعل کی فاعل کے ساتھ مطابقت کا بیان
درج ذیل صورتوں میں فعل کو مذکر لانا واجب ہے:
۱۔جب فاعل مذکر ہو۔ جیسے:جَلَسَ وَلَدٌ۔
۲۔جب فاعل مؤنث حقیقی ہو لیکن فعل اور فاعل کے درمیان اِلاَّ کا فاصلہ آجائے جیسے:مَا نَصَرَ اِلاَّ فَاطِمَۃُ۔
درج ذیل صورتوں میں فعل کو مؤنث لانا واجب ہے:
۱۔ جب فاعل مؤنث حقیقی ہو اور فعل اور فاعل کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔ جیسے:قَالَتْ اِمْرَأَۃٌ۔
۲۔ جب فاعل ضمیر ہو اور مؤنث حقیقی یا غیر حقیقی کی طرف لوٹ رہی ہو۔ جیسے:ھِنْدٌ قَامَتْ، اور اَلشَّمْسُ طَلَعَتْ۔
درج ذیل صورتوں میں فعل کو مذکر ومؤ نث دونوں طرح لاناجائز ہے:
۱۔ جب فاعل مؤنث حقیقی ہو اور فعل وفاعل کے درمیان اِلاَّ کے علاوہ کسی اور کلمے سے فاصلہ آجائے ۔جیسے: جَاءَ الْیَوْمَ فَاطِمَۃُ ، اور جَاءَ تِ الْیَوْمَ فَاطِمَۃُ۔
۲۔جب فاعل مؤنث معنوی ہو ۔جیسے: طَلَعَ الشَّمْسُ اور طَلَعَتِ الشَّمْسُ۔
۳۔ جب فاعل جمع مکسر ہو ۔جیسے: جَاءَ الرِّجاَلُ اور جَاءَ ت الرِّجَالُ۔
۴۔ جب فاعل ضمیر ہو اور اس کا مرجع مذکر عاقل کی جمع مکسر ہو ۔ جیسے:اَلرِّجَالُ ذَھَبْنَ اوراَلرِّجَالُ ذَھَبُوْا۔
تنبیہ:
اس صورت میں فعل واحد مؤنث بھی آسکتا ہے۔ جیسے:اَلرِّجَالُ ذَھَبَتْ۔
۵۔ جب فاعل اسم جمع ہو ۔جیسے:جَاءَ الْقَوْمُ اورجَاءَ تِ الْقَوْمُ۔
تنبیہ:
اجزاء ِکلام کی ترتیب میں اصل یہ ہے کہ پہلے فعل آئے پھر فاعل اوراس کے بعد مفعول آئے ۔جیسے: اَکَلَتِ الْبِنْتُ الْخُبْزَ۔ مگر کبھی مفعول کو (جوازاً یا وجوباً)فاعل پر مقدم کر دیا جاتا ہے ۔ جیسے: أَکْرَمَ عَمْرواً زَیْدٌ۔ اور کبھی فعل پر بھی مقدم کردیا جاتاہے۔ جیسے:زَیْداً ضَرَبْتُ۔البتہ فعل پر فاعل کی تقدیم جائز نہیں ۔
1۔۔۔۔۔۔ بعض اوقات فاعل لفظاً مجرورہوتاہے مگرمحلاً وہ مرفوع ہی کہلائے گا۔جیسے:کَفٰی بِاللہِ شَھِیْداً۔