حضور شیخ الاسلام کا اندازِمثال بے مثال
قاری محمد یوسف اشرفی نظامی، ڈانڈیلی۔
فاضل جامعہ نظامیہ حیدرآباد،رتلنگانہ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس طرح تاجدار اہل سنت حضور شیخ الاسلام رئیس المحققین حضرت علامہ مفتی سید محمد مدنی اشرفی جیلانی دامت برکاتہم العالیہ کچھوچھہ شریف کوبے شمار خوبیوں سے نوازا ہے وہیں پر رب ذوالجلال نے حضور شیخ الاسلام کو خطابت کا ملکہ کابھی عطا فرمایا ہے ’’چونکہ مثالوں کا بیان مقتضائے حکمت اور مضمون کو دل نشین کرنے والا ہوتاہے اور فُصَحائے عرب کا دستور ہے‘‘۔ حضور شیخ الاسلام اپنے خطابات میں عموما مثالوں کے ذریعہ سے بڑے سے بڑے مسئلہ کو حل فرماتے ہیں خصوصا عقائد کے متعلق سمجھنے میں جو دشواری پیش آتی ہے اس کو آپ اپنے فن سے بڑی آسانی سے سمجھا دیتے ہیں ۔ اورکیوںنہ ہو مثال کے ذریعہ سمجھانا خود رب کعبہ کا طریقہ ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں کئی ایک مقامات پر مثالوں کے ذریعہ سے سمجھایاہے جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتاہے مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّآ اَضَآء َتْ مَا حَوْلَہ ذَہَبَ اللہُ بِنُوْرِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(سورہ بقرۃ17)
ترجمہ :ان کی کہاوت اسکی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ تعالیٰ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا ۔
یہ ان کی مثال ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اس پر قدرت بخشی پھر انہوں نے اس کو ضائع کر دیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ان کا مال حسرت و افسوس اور حیرت و خوف ہے ۔ اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِایمان کیا اور دل میں کُفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا اور وہ بھی جو مؤمن ہونے کے بعد مرتد ہو گئے اور وہ بھی جنہیں فِطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب حق سننے ، ماننے ، کہنے ، راہِ حق دیکھنے سے محروم ہوئے تو کان ، زبان ، آنکھ سب بے کار ہیں ۔(خزائن العرفان)
اور ایک دوسری مثال دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَہَا (سورہ بقرۃ:26)
ترجمہ:بیشک اللہ تعالیٰ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر ۔
اور احادیث طیبہ میں بھی آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ سلم نے مثالوں کے ذریعہ سے اپنے صحابہ کو اعمال کی طرف ترغیب دلائی ہے جیسے کہ سرکار دوعالم خود مثال دیتے ہو ئے فرماتے ہیں
عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: اَرَاَیْتُمْ لَوْ اَنَّ نَہْرًا بِبَابِ اَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ مِنْہُ کُلَّ یَومٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، ہَلْ یَبْقَی مِنْ دَرَنِہِ شَیئٌ؟ قَالُوْا: لَا یَبْقَی مِنْ دَرَنِہِ شَیئٌ. قَالَ: فَذٰلِکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ. یَمْحُواﷲُ بِہِنَّ الْخَطَایَا.(۱۔مسلم فی السنن، کتاب : الساجد، باب : المشی إلی الصلاۃ تُمْحَی بہ الخطایا وتُرْفَعُ بِہِ الدرجات۔۲۔والترمذی فی السنن، کتاب : الامثال عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: مثل الصلوات الخمس)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بتاؤ!اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک دریا ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس (کے بدن)پر کچھ میل باقی رہے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اس (کے بدن)پر بالکل میل باقی نہیں رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانچ نمازوں کی مثال بھی ایسی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے سبب (بندے کے سارے)گناہ مٹا دیتا ہے۔
اب آئیے حضور شیخ الاسلام نے اپنے خطابات میں جو مثالوں کے ذریعہ سے مشکل مسئلوں کو حل فرمایا ہے اس کو ملاحظہ فرمائیں۔
بشریت مصطفی ﷺ سمجھاتے ہوئے حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم ا فرماتے ہیں
نبی سب کو آپس میں بھائی بنانے آیا ہے ، خود بھائی بننے نہیں آیا ہے ۔
دیکھو پہلے باپ ہوتا ہے پھر بیٹا ، ایسا ہی تو ہوتا ہے ۔ ایسا تو نہیں کہ پہلے بیٹا ہو اور بعد میں باپ آئے ۔ ذرا سا خیال کرو تو معلوم ہوگا کہ باپ مقدم ہوتا ہے اور اس دنیا کی ابتداء بھی باپ سے ہوتی ہے۔ اس دنیا کی ابتداء بھی نبی سے ہوتی ہے ، پہلے باپ ، پھر بیٹا یہی حال ہے پہلے نبی ، پھر امتی ۔ ایسا نہیں کہ امتی پہلے آجائے اور نبی بعد میں آئے اور سنو باپ اپنے بیٹے کی ظاہری زندگی کا سبب ہے اور نبی امتی کی دائمی زندگی کا سبب ہے ۔ باپ جو زندگی دیتا ہے وہ قبر تک ختم اور نبی سے جو زندگی ملتی ہے وہ جنت تک چلتی ہے ۔ نبی دائمی زندگی دینے والا ہے ۔ ایک بات اور بتلاؤں کہ کسی کو بہت سے بیٹے ہوتے ہیں ، کسی کو چار ، کسی کو پانچ ، چھ کسی کو ، کسی کو ایک درجن ہوتے ہیں ۔ جب ایک درجن ہوئے تو ایک درجن رنگ کے بھی ہوتے ہیں ، نقشہ بھی ایک درجن ہوتا ہے ، کوئی دبلا ہوگا کوئی موٹا ہوگا ، کوئی لمبا ہوگا ، کوئی کالا ہوگا کوئی گورا ہوگا، مگر ہوتا کیا ہے ؟ باپ تو سب کو حق برابر دیتا ہے ۔ کالے ، گورے ، موٹے ، دبلے ، سب کو آپس میں بھائی بنا دیتا ہے ۔ دیکھو باپ سب بیٹوں کو بھائی بنانے آیا ہے خود بھائی بننے نہیں آیا ہے ۔بھائی بننے نہیں آیا ہے ، بھائی بنانے آیا ہے ۔ نبی کا کا م یہی ہے کہ اپنی امتیوں کو چاہے حبشی ہو، چاہے رومی ہو، چاہے عربی ہو ، چاہے عجمی ہو، چاہے فارسی ہو، چاہے ہاشمی ہو ، چاہے مطلبی ہو، سب کو بھائی بنادے ۔ نبی بھائی بننے نہیں آیا ہے آپ خیال کرتے چلے جائیں یہ بیٹے جو ہیں اگر مختلف ڈگریاں حاصل کریں مثلاً یہ ڈاکٹر ہوگیا ، یہ انجنئیر ہوگیا ، یہ پروفیسر ہوگیا ، یہ بی اے ہوگیا ، یہ انتظامیہ کی طرف رخ کیا تو یس پی ہوگئے ، ڈی یس پی ہوگئے ، آئی جی ہوگئے ، ڈی آئی جی ہوگئے ، عدلیہ کی طرف گئے تو منصف ہوگئے ، مجسٹریٹ ہوگئے ، سشن جج ہوگئے ، اگر یہ مقننہ کی طرف گئے تو ایم ایل اے ہوگئے ، ایم پی ہوگئے ، منسٹر ہوگئے ، صدر ہوگئے ، موٹی موٹی ڈگریاں حاصل کر کے سب کچھ ہوسکتا ہے ، مگر اپنا باپ نہیں ہو سکتا جتنی بھی ترقی کرے بیٹے کا بیٹا ہی رہے گا ۔(خطبات حیدرآباد ، صفحہ:75.74)
نبی اور غیر نبی میںکیا فرق ہے اس کو واضح کرتے ہوئے حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں
کوئی غیر نبی ، نبی نہیں ہوسکتا
یہ ہی حال ہے ایمان والوں کا ۔ اگر ایمان والے ترقی کریں تو متقی ہوجائیں گے ، قطب ہوجائیں گے ، قطب الارشاد ہوجائیں گے ، خواجہ ہوجائیں گے ، غوث اعظم ہوجائیں گے ، ابدال بنیں گے اوتاد بنیں گے ، تبع تابعی بنیں گے ، صحابہ بنیں گے ، حیدر بنیں گے ، غنی بنیں گے ، صدیق بنیں گے ، سب کچھ بن جائیں گے ، مگر نبی نہیں ہوں گے ۔ مر جاؤ گے نبی نہیں بن سکتے ۔اس لئے میں کبھی کبھی پوچھ لیا کرتا ہوںنبی وغیر نبی کا فرق بتلاؤ تو کچھ لوگ محبت میں بول سکتے ہیں نبی بادشاہ غیر نبی اس کے سامنے رعایا ہے،کوئی بولا نبی کمانڈر اِن چیف ،غیر نبی اس کے سامنے سپاہی‘نبی عالم اور غیر نبی اس کے سامنے جاہل ‘میں کہتا ہوں کہ تم نے سوچنے میں غیر نبی کے آداب کا کچھ لحاظ کیا پورے طور پر حقیقت نبوت نہ سمجھ سکے ،کیوںکہ نبی وغیر نبی میںوہ فرق نہیں ہے جو جاہل اور عالم میں ہے،جو بادشاہ اور رعایا میں ہے،جو سپہ سالار اور سپاہی میں ،کیوںاس لئے کہ جاہل اگر محنت کرے تو عالم ہو سکتا ہے مگر نبی! تڑپ تڑپ کر مر جائے تو بھی نہیں بن سکتا ،نبی و غیرنبی کا فرق وہی ہے جو جانور اور انسان میں ہے ،گدھا گدھا رہے گا ،آدمی نہیں بن سکتا ۔(خطبات حیدرآباد ،صفحہ:76.75)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ سلم کو تکلیف پہنچانے والوں کے تعلق سے حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں
اذیت کی مذمت
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ سلم فرماتے ہیں مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہے ۔ یہ زبان اور ہاتھ اذیت پہونچانے میں بہت آگے رہتے ہیں، جب کسی سے کوئی اختلاف ہوتا ہے تو پہلے زبان چلتی ہے اس کے بعد ہاتھ چلتا ہے ویسے تو کام سب ہی کرتے ہیں پیر دوڑتا ہے، منشاء یہ ہے کہ تم کسی بھی طور سے اذیت نہ پہنچاؤ نہ ہاتھ سے نہ زبان سے ۔ کچھ اذیت پہنچانے کے لئے نقلیں کرتے ہیں ، مذاق اڑاتے ہیں فلاں ایسا ہے فلاں ویسا ہے ۔
مروان کے باپ حَکَم نے حضورصلی اللہ علیہ والہ سلم کی رفتار کی نقل بنائی تھی حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ سلم سے خوبصورت کس کی رفتار ہو سکتی ہے مگر خوبصورت چیز کوبھی کسی نے بطور استہزاء پیش کرے تو اس میں بھی توہین ہے تو سرکار رسالت صلی اللہ علیہ والہ سلم نے حَکم اور مروان کو مدینہ منورہ سے نکال دیا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ سلم نے خود ارشاد فرمایا کہ تم میری نقل کرو : صلوا کما رایتمونی اصلی ، نماز پڑھو جیسا مجھ کو نماز پڑھتا ہوا دیکھو ۔ نماز پڑھنے کے لئے رسول کی نقل کرنی پڑے گی ۔رسول کے قیام کی نقل ، رکوع کی نقل اور سجدو ں کی نقل قعدہ کی نقل ہر چیز کی نقل کرنی پڑے گی ۔ معلوم ہوا کہ استہزاء والی نقل اور ہے ، غلامی والی نقل اور ہے ، محبت والی نقل اور ہے عداوت والی نقل اور ہے تحقیر شان والی نقل اور ہے ، اتباع و اطاعت والی نقل اور ہے ۔ تم کو حق نہیں ہے کہ تم کسی مسلمان کو اذیت پہچاؤ زبان سے نہ ہاتھ سے ۔
خداوند کریم کے دین کی نشانیوں کی تعظیم کے تعلق سے حضورشیخ الاسلام ارشاد فرماتے ہیں
اللہ کے دین کی نشانیوں کی تعظیم
وشکرولی ومن یعظم شعائر اللہ فانہ من تقوی القلوب ۔ جو اللہ کے دین کی نشانیوں کی تعظیم کرے یہی دل کا تقویٰ ہے تو ان کی تعظیم یہی خدا کی تعظیم ہے ،یہاں پر ایک بات میں اور کہہ کے آسانی سے نکل جاؤں یہ خدا کی دین کی نشانی کیا ہے تاکہ یہ پتہ چلے وہ کونسی چیز ہے جس کی تعظیم خدا کی تعظیم ہے تو قرآن کریم سے ایک ضابطہ آپ نکال سکتے ہیں یہ خدا کی دین کی نشانی کیسے ہم سمجھیں گے کیا چیز خداکے دین کی نشانی ہے ۔ تو ، ان الصفا و المروۃ من شعائر اللہ ، (سورہ بقرۃ )صفا اور مروہ یہ خدا کے دین کی نشانیوں میں سے ہے۔ سارے حاجی وہاں کی زیارت کر کے آیئے ہیں جائیں گے وہ دیکھیں گے یہ صفا اور مروہ کیا ہے پوچھ لیجئے کسی حاجی صاحب سے صفا اور مروہ۔ کسی پیغمبر کا نام نہیں ہے کسی نبی و رسول کا نام نہیں کسی غوث و قطب کا نام نہیں ہے صفا اور مروہ یہ دو پہاڑیاں پتھر اب جاکر آپ صفا ومروہ سے بھی پوچھ لیں زبان حال کے بولی اگر آپ سمجھتے ہیں اور آپ معلوم کریں پتہ لگائیں کے صفا مروہ نے کتنی نمازیں پڑھیں اور کتنے چلّے کئے ساری دنیا وہیں جاکے حج کرتی ہے آج اس نے ایک بھی حج نہیں کئے اور ساری دنیا وہیں جاکر سعی کرتی ہے اس نے خود اپنے اوپر سعی نہیں کیا وہیں جاکر اس کے سامنے لوگ کعبہ کا چکّر لگاتے ہیں اس نے کبھی چکر نہیں لگایا پھر یہ مقام وہ خدا کے دین کی نشانی کیسے ہوگیا ؟ یہ پتھر ہے پتھر مگر پوچھئے گا کسی ایسے حاجی سے واقعی جوجاکر آیا ہے۔ ایسا نہ کہ بمبئی سے واپس آگیا ہو پتہ نہیں وہ کیا بتا دے کہ صفا کسی غوث کا نام رکھ دے اور مروہ کسی قطب کا نام رکھدے ، مجھے کسی نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک دیہات میں کوئی سیٹھ صاحب تھے اللہ نے دے رکھا تھا بہت کچھ مگر حج کا خیال نہیں کرتے تھے گاؤں والوں نے بہت اسرار کیا سیٹھ صاحب حج کر لیجئے سوچا کے چلو بمبئی تک چلتے ہیں حاجیوں کے قافلے کے ساتھ اور پھر حاجیوں ہی کے قافلے کے ساتھ واپس آجائیں گے کسی غرض سے پانی بھر لیں گے بازار سے کھجور خرید لیں گے کہیں لمبا کرتا بنوالیں گے اور حاجی بن کے چلے آئیں گے تو سیٹھ کسی طرح جب وہ حاجی بن کے آئے حاجیوں کے قافلے کے ساتھ گاؤں والوں نے خوب پھول ہار کیا بہترین انداز سے خوش آمدید کیامگر جو پرانے حاجی صاحب تھے انہوں ایک بات پوچھا حاجی صاحب یہ بتائے کہ حجر اسود کو بوسہ دینے کا موقع ملا؟ تو کہا ہاں حضرت اسود جو ہیں بڑے اچھے آدمی ہیں اور وہ حاجی گھبرا گیا ارے آپ آدمی کہتے ہیں وہ تو پتھر ہے تو مسکرا کر کہنے لگے نہیں حاجی صاحب جب آپ گئے تھے تو پتھرتھے اب آدمی ہوگئے ہیں بہت پہلے آپ گئے تھے ۔ تو ایسے مت کہنا اُسے پوچھئے جو واقعی زیارت کر کے آگیا ہو سوالات کرنے کی ضرورت نہیں ہے واقعی اگر پتھر کا دیکھنا ہے تو مکہ چلو صفا اور مروہ پتھر، خانۂ کعبہ پتھر ، حجر اسود پتھر ، مقام ابراھیم پتھر ، عرفات کا میدان پتھر، منیٰ کی وادی پتھریلی وادی، غارحرا پتھر، جبل رحمت پتھر،پتھر کا مقدر دیکھنا ہو تو مکہ چلو اور یہ پتھر خدا کے دین کی نشانی یہ پتھر کیوںنہ یہ خدا کی نشانی ہے ان کی تعظیم خدا کی تعظیم بات صرف صفا و مروہ کے تعلق سے چلی ایک اللہ کے مقبول بندے کے قدموں سے نسبت ہوگئی اس کو تو آپ کیا دیکھے یہ سب نسبتوں نے انہیں یہ مقام دیدیا ۔ مقام ابراھیم کو تو وہ مقام ملا تو کسی پتھر کا مقدر ایسا نہیں دکھتا حاجیوں کے لئے حکم ہے کہ مقام ابراھیم کو اپنا مصلّٰی بنا لومقام ابراھیم وہی پتھر ہے نا جہاں پہ ابراھیم کھڑے تھے اور کعبہ کی تعمیر فرمارہے تھے تو پتھر وہ بلند ہوتا تھا نیچے ہوتا تھا ان کے ارادے کے مطابق تو اس پہ نشان لگ گئے حضرت ابراھیم کے قدم کے نشان اس کے اوپر تو کہا اس کو مصلّٰی بناؤ اس پورے حصے میں وہ نماز سب سے افضل ہے جو مقام ابراھیم کے پاس ادا کی جائے یعنی اس نماز سے بھی زیادہ افضل جو حطیم میں ادا کی گئی ہو ، اس نماز سے بھی زیادہ افضل جو خانۂ کعبہ کے اندر ادا کی جائے مقام ابراھیم یعنی کعبہ کے اندر کھڑے ہو کے نماز پڑھو تو وہ فضیلت نہ ملے اور مقام ابراھیم کے قریب پڑھو تو فضیلت ملے بات کیاہے بات یہ ہے کہ مقام ابراھیم جو پتھر ہے اس پر حضرت ابراھیم کا نشانِ قدم ہے تو اپنی عبادت کو تم مقبول معظم اور بہتر فضیلت والا بنانا چاہو تو سجدہ خدا کے لئے ہو قربت نبی کے نشانِ قدم پہ ہو کبھی اس پتھر سے پوچھنا اے پتھر تیری سختی بہت مشہور ہے یہ کیوں نشان لے لیا ،تو موم نہیں نشان لے لے تُو پتھر ہے پتھر، تو کتنا اچھا جواب وہ پتھر دیگا اگر میں نبی کا نشان نہ لیتا میرا نشان کہاں سے بچتا، بتانے کا طریقہ یہی تھا کہ کتنے بھی انقلاب آجائیں مگرمیں بچا رہوں گا اس لئے کہ میں نے نشان قدم کو اپنا لیا ہے بچنے کا نشان مل گیا ہے اگر تم دنیا میں بچنا چاہوتو نبی کا نشان دل میں لگا لینا یہی ایک بچنے کی ترکیب نبی کے نشان کے قریب ہوجاؤ میں انتہا کی بات بتاؤں وہ قوم جو آثار منسوبات کی دشمن ہے وہ بھی اثر ابراھیمی کی حفاظت کر رہی ہے ذرا سا آپ خیال کریں کہ یہی تو نشان قدم تو جو چیز عظمت والے سے منسوب ہوجائے وہ باعظمت نسبت میں بڑا رنگ ہوتاہے ، نسبت میں بڑا زور ہوتا ہے
یہ چند مثالیں تھی جن کو حضورشیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے خطابات میں بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ حضورشیخ الاسلام کو عمر خضر عطا فرمائے اور ان کا سایہ اہل سنت پر تادیر قائم و دائم رہے آمین بجاہ سید المرسلین و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ و اصحابہ اجمعین ۔