حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے مطلع فرمایا۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ جو شخص خبیب کی لاش کو سولی سے اتار لائے اس کے لئے جنت ہے۔ یہ بشارت سن کر حضرت زبیر بن العوام و حضرت مقداد بن الاسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہما راتوں کو سفر کرتے اور دن کو چھپتے ہوئے مقام”تنعیم” میں حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سولی کے پاس پہنچے۔ چالیس کفار سولی کے پہرہ دار بن کر سو رہے تھے ان دونوں حضرات نے سولی سے لاش کو اُتارا اور گھوڑے پر رکھ کر چل دئیے۔چالیس دن گزر جانے کے باوجود لاش تروتازہ تھی اور زخموں سے تازہ خون ٹپک رہا تھا۔ صبح کو قریش کے ستر سوار تیز رفتار گھوڑوں پر تعاقب میں چل پڑے اور ان دونوں حضرات کے پاس پہنچ گئے،ان حضرات نے جب دیکھا کہ قریش کے سوار ہم کو گرفتار کر لیں گے تو انہوں نے حضرت خبیب
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش مبارک کو گھوڑے سے اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ ایک دم زمین پھٹ گئی اورلاش مبارک کو نگل گئی اور پھر زمین اس طرح برابر ہو گئی کہ پھٹنے کا نشان بھی باقی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لقب ”بلیع الارض”(جن کو زمین نگل گئی) ہے۔
اس کے بعد ان حضرات رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے کفار سے کہا کہ ہم دو شیر ہیں جو اپنے جنگل میں جا رہے ہیں اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو ہمارا راستہ روک کر دیکھو ورنہ اپنا راستہ لو۔ کفار نے ان حضرات کے پاس لاش نہیں دیکھی اس لئے مکہ واپس چلے گئے۔ جب دونوں صحابہ کرام نے بارگاہ رسالت میں سارا ماجرا عرض کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام بھی حاضر دربار تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ کے ان دونوں یاروں کے اس کارنامہ پر ہم فرشتوں کی جماعت کو بھی فخر ہے۔(1)
                 (مدارج النبوۃ جلد۲ ص۱۴۱)
Exit mobile version