الف: جب” شرک” کا مقابلہ ایمان سے ہوگا تو شرک سے مراد ہر کفر ہوگا ۔ ب: جب” شرک” کا مقابلہ اعمال سے ہوگا تو شرک سے مراد مشرکوں کاسا کام ہوگا نہ کہ کفر ۔
”الف” کی مثال یہ ہے :
(1) وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ
مومن غلام مشرک یعنی کافر سے بہتر ہے ۔(پ2،البقرۃ:221)
(2) وَ لَا تُنۡکِحُوا الْمُشْرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوۡا
مشرک یعنی کسی کا فر سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔(پ2،البقرۃ:221)
(3) اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ
بے شک اللہ مشرک کو نہ بخشے گا اس کے سوا جسے چاہے بخش دے گا ۔(پ5،النسآء:48)
ان تمام آیتو ں میں شرک سے مراد کفر ہے کیوں کہ مومنہ کا کسی کافر مرد سے نکاح جائز نہیں۔ کوئی کفر جس پر انسا ن مرجاوے بخشا نہ جاوے گا۔ مومن ہر کافر سے بہتر ہے ۔اگر یہاں شرک کے معنی صرف بت پرستی کیا جاوے تو غلط ہوگا ۔
” ب” کی مثال یہ ہے:
(1) وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۙ۳۱﴾
نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو ۔(پ21،الروم:31)
اس آیت میں او راس حدیث میں مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْکَفَرَ جس نے جان بوجھ کرنمازچھوڑدی وہ کافرہوگیا۔یہ ہی مرادہے کہ نمازنہ پڑھنامشرکوں، کافروں کاساکام ہے کیوں کہ نماز نہ پڑھنا گناہ تو ہے کفر یا شرک نہیں ۔