جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے طائف کا ارادہ فرمایا تو حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کے ساتھ بھیجا کہ وہ ”ذوالکفین” کے بت خانہ کو برباد کر دیں۔ یہاں عمربن حممہ دوسی کا بت تھا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت طفیل بن عمرو
دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وہاں جا کر بت خانہ کو منہدم کر دیا اور بت کو جلا دیا۔ بت کو جلاتے وقت وہ ان اشعار کو پڑھتے جاتے تھے:
یَاذَا الْکَفَیْنِ لَسْتُ مِنْ عِبَادِکَا
اے ذالکفین!میں تیرا بندہ نہیں ہوں
مِیْلَادُنَا اَقدم مِنْ مِیْلَادِکَا
میری پیدائش تیری پیدائش سے بڑی ہے
اِنِّیْ حَشَوْتُ النَّارَ فِیْ فُؤَادِکَا
میں نے تیرے دل میں آگ لگا دی ہے
حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چار دن میں اس مہم سے فارغ ہوکر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس طائف میں پہنچ گئے۔ یہ ”ذوالکفین” سے قلعہ توڑنے کے آلات منجنیق وغیرہ بھی لائے تھے۔ چنانچہ اسلام میں سب سے پہلی یہی منجنیق ہے جو طائف کا قلعہ توڑنے کے لئے لگائی گئی ۔مگر کفار کی فوجوں نے تیر اندازی کے ساتھ ساتھ گرم گرم لوہے کی سلاخیں پھینکنی شروع کر دیں اس وجہ سے قلعہ توڑنے میں کامیابی نہ ہو سکی۔ (1) (زرقانی ج۳ ص۳۱)
اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھیجا کہ طائف کے اطراف میں جو جا بجا ثقیف کے بت خانے ہیں ان سب کو منہدم کر دیں۔
چنانچہ آپ نے ان سب بتوں اور بت خانوں کو توڑ پھوڑ کر مسمار و برباد کردیا۔ اور جب لوٹ کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور بہت دیر تک ان سے تنہائی میں گفتگو فرماتے رہے،جس سے لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔ (1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۱۸)
طائف سے روانگی کے وقت صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ قبیلہ ثقیف کے کفار کے لئے ہلاکت کی دعا فرما دیجئے۔ تو آپ نے دعا مانگی کہ” اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا وَأْتِ بِھِمْ ”یااﷲ!عزوجلثقیف کو ہدایت دے اور انکو میرے پاس پہنچا دے۔(مسلم ج۲ص۳۰۷)
چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی یہ دعا مقبول ہوئی کہ قبیلہ ثقیف کا وفد مدینہ پہنچا اور پورا قبیلہ مشرف بہ ۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب نبذۃ من قسم الغنائم…الخ، ج۴، ص۱۸
اسلام ہو گیا۔