امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات اور یزید کی سلطنت
امیرمعاویہ نے رجب 60 ھ میں بمقا مِ دِمَشْق لَقْوَہ میں مبتلاہوکروفات پائی۔ آپ کے پاس حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات میں سے ازارشریف، ردائے اقدس، قمیص مبارک، موئے شریف اور ترا شہائے ناخن ہُمَایوں تھے، آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ازا رشریف وردائے مبارک و قمیص اقدس میں کفن دیاجائے اور میرے ان اعضا پر جن سے سجدہ کیا جاتا ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے موئے مبارک اور ترا شۂ ناخنِ اقدس رکھ دئیے جائیں اور مجھے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن کے رحم پر چھوڑ دیاجائے۔
کورِباطن یزید نے دیکھا تھاکہ اس کے باپ امیر معاویہ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات اور بدنِ اقدس سے چھوجانے والے کپڑوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھا تھا اور دمِ آخر تمام زر ومال ثروت وحکومت سب سے زیادہ وہی چیزپیاری تھی اور اسی کو ساتھ لے جانے کی تمنا حضرت امیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں تھی۔ اس کی برکت سے انہیں امید تھی کہ اس ملبوس پاک میں بوئے محبوب ہے۔ یہ مقام غربت
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
میں پیارا رفیق اور بہترین مونس ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لباس اور تبرکات کے صدقے میں مجھ پر رحم فرمائے گا۔ اس سے وہ سمجھ سکتا تھا کہ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بدن پاک سے چھوجانا ایک کپڑے کو ایسا بابرکت بنا دیتا ہے توحسنین کریمین اور آلِ پاک علیہم الرضوان جو بدنِ اقدس کا جزو ہیں ان کا کیا مرتبہ ہوگا اور ان کا کیااحترام لازم ہے۔ مگربد نصیبی اور شقاوت کا کیا علاج۔
امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد یزید تختِ سلطنت پر بیٹھا اور اس نے اپنی بیعت لینے کیلئے اطراف و ممالک سلطنت میں مکتوب روانہ کئے، مدینہ طیبہ کا عامل جب یزید کی بیعت لینے کے لئے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپ نے اس کے فسق و ظلم کی بنا پر اس کونااہل قراردیا اور بیعت سے انکار فرمایا اسی طرح حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی۔(1)
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے تھے کہ بیعت کا انکار یزید کے اِشْتِعال کا باعث ہوگا اور نابکار جان کا دشمن اور خون کا پیاسا ہوجائے گالیکن امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دیانت و تقویٰ نے اجازت نہ دی کہ اپنی جان کی خاطر نااہل کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور مسلمانو ں کی تباہی اور شرع واحکام کی بے حرمتی اور دین کی مَضَرَّت کی پرواہ نہ کریں اور یہ امام جیسے جلیلُ الشَّان فرزند ِرسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) سے کس طرح ممکن تھا؟ اگر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت یزید کی بیعت کرلیتے تو یزید آپ کی بہت قدر و منزلت کرتا اور آپ کی عافیت وراحت میں کوئی فرق نہ آتا بلکہ بہت سی دولت دنیا آپ کے پاس
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جمع ہوجاتی لیکن اسلام کا نظام درہم برہم ہوجاتا اور دین میں ایسا فساد برپا ہوجاتا جس کادور کرنا بعد کو ناممکن ہوتا۔ یزید کی ہر بدکاری کے جواز کے لئے امام کی بیعت سند ہوتی اور شریعت اسلامیہ و ملت حنفیہ کا نقشہ مٹ جاتا۔ شیعوں کو بھی آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہیے کہ امام نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیا اور تَقَیَّہ کا تصور بھی خاطِرِ مبارک پر نہ گزرا، اگرتَقَیَّہ جائز ہوتا تو اس کیلئے اس سے زیادہ ضرورت کا اور کون وقت ہوسکتا تھا؟ حضرت امام وابنِ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بیعت کی درخواست اسی لئے پہلے کی گئی تھی کہ تمام اہلِ مدینہ ان کا اتباع کریں گے، اگر ان حضرات نے بیعت کرلی تو پھر کسی کو تأمُّل نہ ہوگا لیکن ان حضرات کے انکار سے وہ منصوبہ خاک میں مل گیا اور یزیدیوں میں اسی وقت سے آتش عِنادبھڑک اٹھی اور بضرورت ان حضرات کو اسی شب مدینہ سے مکہ مکرمہ منتقل ہوناپڑا۔ یہ واقعہ چوتھی شعبان 60ھ کا ہے۔
1۔۔۔۔۔۔الاکمال فی اسماء الرجال،حرف المیم،فصل فی الصحابۃ،ص۶۱۷
وتاریخ الخلفاء،باب یزید بن معاویۃ…الخ،ص۱۶۴