آیت تخییر وایلاء

  ”تخییر” اور ”ایلاء”یہ شریعت کے دواصطلاحی الفاظ ہیں۔ شوہر اپنی بیوی کو اپنی طرف سے یہ اختیار دے دے کہ وہ چاہے تو طلاق لے لے اور چاہے تو اپنے شوہر ہی کے نکاح میں رہ جائے اس کو ”تخییر” کہتے ہیں۔ اور ”ایلاء” یہ ہے کہ شوہر یہ قسم کھا لے کہ میں اپنی بیوی سے صحبت نہیں کروں گا۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے ناراض ہو کر ایک مہینہ کا ”ایلاء” فرمایا یعنی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ قسم کھا لی کہ میں ایک ماہ تک اپنی ازواج مقدسہ سے صحبت نہیں کروں گا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام مقدس بیویوں کو طلاق حاصل کرنے کا اختیار بھی سونپ دیا مگر کسی نے بھی طلاق لینا پسند نہیں کیا۔
    حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ناراضگی اور عتاب کا سبب کیا تھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ”تخییروایلاء” کیوں فرمایا؟ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس بیویاں تقریباً سب مالدار اور بڑے گھرانوں کی لڑکیاں تھیں۔” حضرت ام حبیبہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا رئیس مکہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ ”حضرت
جویریہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا قبیلہ بنی المصطلق کے سردار اعظم حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں۔ ”حضرت صفیہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بنو نضیر اور خیبر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی نور نظر تھیں۔ ”حضرت عائشہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پیاری بیٹی تھیں۔” حضرت حفصہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی چہیتی صاحبزادی تھیں۔ ”حضرت زینب بنت جحش” اور” حضرت اُمِ سلمہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بھی خاندانِ قریش کے اونچے اونچے گھروں کی ناز و نعمت میں پلی ہوئی لڑکیاں تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ امیر زادیاں بچپن سے امیرانہ زندگی اور رئیسانہ ماحول کی عادی تھیں اور ان کا رہن سہن، خوردونوش، لباس و پوشاک سب کچھ امیرزادیوں کی رئیسانہ زندگی کا آئینہ دار تھااور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی بالکل ہی زاہدانہ اور دنیوی تکلفات سے یکسر بے گانہ تھی۔ دو دو مہینے کا شانہ نبوت میں چولھا نہیں جلتا تھا۔ صرف کھجور اور پانی پر پورے گھرانے کی زندگی بسر ہوتی تھی۔ لباس و پوشاک میں بھی پیغمبرانہ زندگی کی جھلک تھی مکان اور گھر کے سازو سامان میں بھی نبوت کی سادگی نمایاں تھی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے سرمایہ کا اکثر و بیشتر حصہ اپنی امت کے غربا و فقراء پر صرف فرما دیتے تھے اور اپنی ازواجِ مطہرات کو بقدرِ ضرورت ہی خرچ عطا فرماتے تھے جو ان رئیس زادیوں کے حسب خواہ زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کے لئے کافی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کبھی کبھی ان امت کی ماؤں کا پیمانہ صبرو قناعت لبریز ہو کر چھلک جاتا تھا اور وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مزید رقموں کا مطالبہ اور تقاضا کرنے لگتی تھیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے متفقہ طور پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے اخراجات میں اضافہ فرمائیں۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن
کی یہ ادائیں مہرنبوت کے قلب نازک پر بار گزریں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سکونِ خاطر میں اس قدر خلل انداز ہوئیں کہ آپ نے برہم ہو کر یہ قسم کھا لی کہ ایک مہینہ تک ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے نہ ملیں گے۔ اس طرح ایک ماہ کا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ”ایلاء” فرما لیا۔
    عجیب اتفاق کہ انہی ایام میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گھوڑے سے گرپڑے جس سے آپ کی مبارک پنڈلی میں موچ آ گئی۔ اس تکلیف کی وجہ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بالاخانہ پر گوشہ نشینی اختیار فرما لی اور سب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔
    صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے واقعات کے قرینوں سے یہ قیاس آرائی کر لی کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام مقدس بیویوں کو طلاق دے دی اور یہ خبر جو بالکل ہی غلط تھی بجلی کی طرح پھیل گئی۔ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم رنج و غم سے پریشان حال اور اس صدمہ جانکاہ سے نڈھال ہونے لگے۔
    اس کے بعد جو واقعات پیش آئے وہ بخاری شریف کی متعدد روایات میں مفصل طورپر مذکور ہیں۔ ان واقعات کا بیان حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زَبان سے سنیے۔
    حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں اورمیرا ایک پڑوسی جو انصاری تھا ہم دونوں نے آپس میں یہ طے کر لیا تھا کہ ہم دونوں ایک ایک دن باری باری سے بارگاہ رسالت میں حاضری دیا کریں گے اور دن بھر کے واقعات سے ایک دوسرے کو مطلع کرتے رہیں گے۔ ایک دن کچھ رات گزرنے کے بعد میرا پڑوسی انصاری آیا اور زور زور سے میرا دروازہ پیٹنے اور چلا چلا کر مجھے پکارنے لگا ۔میں نے گھبرا کر دروازہ کھولا تو اس نے کہا کہ آج غضب ہو گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا غسانیوں نے مدینہ پر
حملہ کر دیا؟ (ان دنوں شام کے غسانی مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے۔)انصاری نے جواب دیا کہ اجی اس سے بھی بڑھ کر حادثہ رونما ہو گیا ۔وہ یہ کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس خبر سے بے حدمُتوحّش ہو گیا اور علی الصباح میں نے مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں نماز فجر ادا کی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے ہی بالاخانہ پر جا کر تنہا تشریف فرما ہو گئے اور کسی سے کوئی گفتگو نہیں فرمائی۔ میں مسجد سے نکل کر اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ بیٹھی رو رہی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے پہلے ہی تم کو سمجھا دیا تھا کہ تم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو تنگ مت کیا کرو اور تمہارے اخراجات میں جو کمی ہوا کرے وہ مجھ سے مانگ لیا کرو مگر تم نے میری بات پر دھیان نہیں دیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سبھوں کو طلاق دے دی ہے؟ حفصہ نے کہا میں کچھ نہیں جانتی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بالاخانہ پر ہیں آپ ان سے دریافت کریں۔ میں وہاں سے اُٹھ کر مسجد میں آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی دیکھا کہ وہ منبر کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں ۔میں ان کے پاس تھوڑی دیر بیٹھا لیکن میری طبیعت میں سکون و قرار نہیں تھا۔ اس لئے میں اُٹھ کر بالاخانہ کے پاس آیا اور پہرہ دار غلام ”رباح” سے کہا کہ تم میرے لئے اندر آنے کی اجازت طلب کرو۔ رباح نے لوٹ کر جواب دیا کہ میں نے عرض کر دیا لیکن آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میری اُلجھن اوربے تابی اور زیادہ بڑھ گئی اور میں نے دربان سے دوبارہ اجازت طلب کرنے کی درخواست کی پھر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ تو میں نے بلند آواز سے کہا کہ اے رباح! تم میرا نام لے کر اجازت طلب کرو۔ شاید رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ خیال ہو کہ میں
اپنی بیٹی حفصہ کے لئے کوئی سفارش لے کر آیا ہوں۔ تم عرض کر دو کہ خدا کی قسم! اگر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے حکم فرمائیں تو میں ابھی ابھی اپنی تلوار سے اپنی بیٹی حفصہ کی گردن اڑا دوں۔ اس کے بعد مجھ کو اجازت مل گئی جب میں بارگاہِ رسالت میں باریاب ہوا تو میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ آپ صلی  اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک کھری بان کی چارپائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم نازک پر بان کے نشان پڑے ہوئے ہیں پھر میں نے نظر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک طرف تھوڑے سے ”جو” رکھے ہوئے تھے اور ایک طرف ایک کھال کھونٹی پر لٹک رہی تھی۔ تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خزانہ کی یہ کائنات دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے رونے کا سبب پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے بڑھ کر رونے کا اور کونسا موقع ہو گا ؟کہ قیصر و کسریٰ خدا کے دشمن تو نعمتوں میں ڈوبے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے رسول معظم ہوتے ہوئے اس حالت میں ہیں۔ آپ صلی  اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر!کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ قیصر و کسریٰ دنیا لیں اور ہم آخرت!
    اس کے بعد میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مانوس کرنے کے لئے کچھ اور بھی گفتگو کی یہاں تک کہ میری بات سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لب انور پر تبسم کے آثار نمایاں ہو گئے۔ اس وقت میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ نے اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی  اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”نہیں” مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ فرط مسرت سے میں نے تکبیر کا نعرہ مارا۔ پھر میں نے یہ گزارش کی یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) صحابہ کرام رضی اللہ
تعالیٰ عنہم مسجد میں غم کے مارے بیٹھے رو رہے ہیں اگر اجازت ہو تو میں جا کر ان لوگوں کو مطلع کر دوں کہ طلاق کی خبر سراسرغلط ہے۔ چنانچہ مجھے اس کی اجازت مل گئی اور میں نے جب آ کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کی خبر دی تو سب لوگ خوش ہو کر ہشاش بشاش ہو گئے اور سب کو سکون و اطمینان حاصل ہو گیا۔
    جب ایک مہینہ گزر گیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قسم پوری ہو گئی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بالاخانہ سے اتر آئے اس کے بعد ہی آیت تخییر نازل ہوئی جو یہ ہے۔
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزْوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۲۸﴾وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجْرًا عَظِیۡمًا ﴿۲۹﴾ (1)(احزاب)
اے نبی!اپنی بیویوں سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اوراسکی آرائش چاہتی ہو تو آؤمیں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح چھوڑ دوں اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو بے شک اﷲ نے تمہاری نیکی والیوں کے لئے بہت بڑااجر تیار کر رکھا ہے۔ 
     ان آیاتِ بینات کا ماحصل اور خلاصہ مطلب یہ ہے کہ رسولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خداوند ِقدوس نے یہ حکم دیا کہ آپ اپنی مقدس بیویوں کو مطلع فرما دیں کہ دو چیزیں تمہارے سامنے ہیں۔ ایک دنیا کی زینت و آرائش دوسری آخرت کی نعمت۔ اگر تم دنیا کی زیب و زینت چاہتی ہو تو پیغمبر کی زندگی چونکہ بالکل ہی زاہدانہ زندگی ہے اس لئے پیغمبر کے گھر میں تمہیں یہ دنیوی زینت و آرائش تمہاری مرضی کے مطابق نہیں
1۔۔۔۔۔۔پ۲۱، الاحزاب: ۲۸
مل سکتی؛لہٰذا تم سب مجھ سے جدائی حاصل کر لو۔ میں تمہیں رخصتی کا جوڑا پہنا کر اور کچھ مال دے کر رخصت کر دوں گا۔ اور اگر تم خدا و رسول اور آخرت کی نعمتوں کی طلب گار ہو تو پھر رسولِ خدا کے دامنِ رحمت سے چمٹی رہو۔ خداعزوجل نے تم نیکو کاروں کے لئے بہت ہی بڑا اجر و ثواب تیار کر رکھا ہے جو تم کو آخرت میں ملے گا۔
(بخاری کتاب الطلاق کتاب العلم۔ کتاب اللباس باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجہا)
اس آیت کے نزول کے بعد سب سے پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک بات رکھتا ہوں مگر تم اس کے جواب میں جلدی مت کرنا اور اپنے والدین سے مشورہ کرکے مجھے جواب دینا ۔اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا تخییر کی آیت تلاوت فرما کر ان کو سنائی تو انہوں نے برجستہ عرض کیا کہ یارسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
فَفِیْ اَیِّ ھٰذَا اَسْتَامِرُ اَبَوَیَّ فَاِنِّیْ اُرِیْدُ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ (1)(بخاری ج۲ ص۷۹۲ باب من خیر نساء ہ)
    اس معاملہ میں بھلا میں کیا اپنے والدین سے مشورہ کروں میں اﷲ اور اسکے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔پھر آپ صلی  اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو الگ الگ آیت تخییر سنا سنا کر سب کو اختیار دیا اور سب نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جواب دیاتھا۔
    اﷲ اکبر!یہ واقعہ اس بات کی آفتاب سے زیادہ روشن دلیل ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات سے کس قدر عاشقانہ شیفتگی
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب التفسیر،باب وان کنتن …الخ،الحدیث:۴۷۸۶،ج۳،ص۳۰۲
اور والہانہ محبت تھی کہ کئی کئی سوکنوں کی موجودگی اور خانہ نبوت کی سادہ اور زاہدانہ طرزِ معاشرت اور تنگی ترشی کی زندگی کے باوجود یہ رئیس زادیاں ایک لمحہ کے لئے بھی رسول کے دامن رحمت سے جدائی گوارا نہیں کر سکتی تھیں۔
Exit mobile version