وہی ربّ ہے جس نے تجھ کو ہَمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تِرا آستاں بتایا
تجھے حمد ہے خدایا
تمہِیں حاکمِ برایا تمہِیں قاسمِ عطایا
تمہِیں دافعِ بلایا تمہِیں شافعِ خطایا
کوئی تم سا کون آیا
وہ کنواری پاک مریم وہ نَفَخْتُ فِیْہکا دم
ہے عجب نشانِ اعظم مگر آمنہ کا جایا
وہی سب سے افضل آیا
یہی بولے سِدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ یہ ملا ہے تم کو مَنصَب
جو گدا بنا چکے اب اُٹھو وقتِ بخشِش آیا
کرو قسمتِ عطایا
وَ اِلَی الْاِلٰہِ فَارْغَبْ کرو عرض سب کے مَطلب
کہ تمہیں کو تکتے ہیں سب کرو اُن پر اپنا سایا
بنو شافعِ خطایا
ارے اے خدا کے بندو! کوئی میرے دل کو ڈھونڈو
مرے پاس تھا ابھی تو ابھی کیا ہوا خدایا
نہ کوئی گیا نہ آیا
ہمیں اے رضاؔ ترے دل کا پتا چلا بہ مشکل
درِ روضہ کے مقابل وہ ہمیں نظر تو آیا
یہ نہ پوچھ کیسا پایا
کبھی خَندَہ زیر لب ہے کبھی گریہ ساری شب ہے
کبھی غم کبھی طَرب ہے نہ سبب سمجھ میں آیا
نہ اسی نے کچھ بتایا
کبھی خاک پر پڑا ہے سرِ چَرخ زیرِ پا ہے
کبھی پیشِ در کھڑا ہے سرِ بندگی جھکایا
تو قدم میں عرش پایا
کبھی وہ تَپک کہ آتِش کبھی وہ ٹپک کہ بارش
کبھی وہ ہجومِ نالِش کوئی جانے اَبر چھایا
بڑی جوشِشوں سے آیا
کبھی وہ چہک کہ بلبل کبھی وہ مہک کہ خود گل
کبھی وہ لہک کہ بالکل چمنِ جِناں کھلایا
گلِ قدس لہلہایا
کبھی زندگی کے اَرماں کبھی مَرگِ نو کا خواہاں
وہ جیا کہ مرگ قرباں وہ موا کہ زیست لایا
کہے روح ہاں جلایا
کبھی گم کبھی عِیاں ہے کبھی سرد گَہ تَپاں ہے
کبھی زیرِ لب فَغاں ہے کبھی چپ کہ دم نہ تھا یا
رخِ کام جاں دکھایا
یہ تَصَوُّراتِ باطل تِرے آگے کیا ہیں مشکل
تری قُدرتیں ہیں کامل انھیں راسْتْ کر خدایا
میں انھیں شفیع لایا
٭…٭…٭…٭…٭…٭