جس سال حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ،پہلے ہی سے آپ نے اپنی وفات کا اعلان فرمانا شروع کر دیا۔ چنانچہ حجۃ الوداع سے پہلے ہی حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کاحاکم بنا کر روانہ فرمایا تو ان کے رخصت کرتے وقت آپ نے ان سے فرمایا کہ اے معاذ! اب اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو گے جب تم واپس آؤ گے تو میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے۔(1)(مسند امام احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۳۵)
اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر جب کہ عرفات میں ایک لاکھ پچیس ہزار سے زائد مسلمانوں کا اجتماع عظیم تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے وہاں دوران خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ شاید آئندہ سال تم لوگ مجھ کو نہ پاؤ گے۔(2)
اسی طرح مرض وفات سے کچھ دنوں پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو یہ اختیاردیا تھا کہ وہ چاہے تو دنیا کی زندگی کو اختیار کر لے اور چاہے تو آخرت کی زندگی قبول کرلے تو اس بندے نے آخرت کو قبول کرلیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رونے لگے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بڑا تعجب ہواکہ آپ تو ایک بندے کے بارے میں یہ خبر دے رہے ہیں تو اس پر حضرت ابو بکر( رضی اﷲ تعالیٰ عنہ )کے رونے کا کیا موقع ہے؟ مگر جب حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے چند ہی دنوں کے بعد وفات پائی تو ہم لوگوں کو معلوم ہواکہ وہ اختیار دیا ہوا بندہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی تھے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم والے تھے۔
( کیونکہ انہوں نے ہم سب لوگوں سے پہلے یہ جان لیا تھا کہ وہ اختیار دیا ہوا بندہ خود حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی ہیں۔)(1)
(بخاری جلد ۱ ص ۵۱۹ باب قول النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سدواالابواب الخ)