ایک نظر ادھر بھی! آج گھاس کمپاؤنڈ جوگیشوری ممبئی میں ایک صاحب کی دوکان پر بیٹھا تھا دوکان کے مالک نہیں تھے لیکن ان کے منیجر تھے جو ہندو دھرم سے تعلق رکھتے ہیں ہم تقریبا آدھے گھنٹے بیٹھے تھے اسی بیچ میں تقریبا کئی افراد آئے جن میں چندہ کرنے والے اور بھیک مانگنے والے افراد تھے ہندو منیجر یہ کہتے کہتے تھک گیا کہ ” ابھی سیٹھ نہیں ہیں آپ لوگ بعد میں آئیں ” دار العلوم اہل سنت فیض النبی کپتان گنج بستی یوپی کا چندہ کرتے ہوئے اس طرح کئی تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نیز مشاہدہ بھی ہو رہا ہے! روزے کی حالت میں سفراء مدارس چندہ کرتے کرتے تھک جا رہے ہیں، روزے کی حالت میں چندہ دینے والے بھی بولتے بولتے اور دیتے دیتے تھک جا رہے ہیں….
قارئین کرام!
مذکورہ بالا واقعہ سے رمضان المبارک میں چندہ دینے اور وصولنے کے سنگین اور حساس ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ایک ہندو تھک جا رہا ہے جو کہ دن بھر کھا پی رہا ہے تو جو لوگ بھوکے پیاسے ہیں وہ بھلا کیوں نہیں تھک سکتے ہیں! اکثر لوگ پوری رات جاگتے ہیں فجر کی نماز پڑھ کر ظہر تک سوتے ہیں پھر دوکان پر جاتے ہیں کچھ دیر بعد روزہ لگنے لگتا ہے پھر چندہ دینا بند کر دیتے ہیں عصر کی نماز پڑھ کر افطاری کی تیاری شروع کر دیتے ہیں افطاری اور مغرب کی نماز کے بعد کچھ دیر آرام کرتے ہیں یا کچھ چندہ دیتے ہیں پھر تراویح کی نماز کے لیے چلے جاتے ہیں پھر کچھ لوگ چندہ دیتے ہیں اور کچھ لوگ آرام کر تے ہیں اس طرح کل آؤ کل آؤ کا معاملہ چلتا رہتا ہے! اب ایمانداری سے بتائیں چندہ کیسے کوئی وصولے گا؟
اب سفراء مدارس میں سے اکثر حضرات پابندی کے ساتھ نہ ہی پینچ وقتہ نماز ہی پڑھ پاتے ہیں اور نہ ہی تراویح پڑھ پاتے ہیں اور بہت سے لوگ روزہ بھی نہیں رکھتے ہیں کیونکہ مسافر ہوتے ہیں اور روزے کی حالت میں بھاگ دوڑ نہیں کر پاتے ہیں اور نہ ہی سیٹھوں کے اعتراضات و معروضات کے جوابات دے سکتے ہیں!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے چندہ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی نمازیں، روزے، تراویح اور عبادات و اذکار و وظائف چھوٹ جا رہے ہیں، رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے دوسرہ مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے ان سب چیزوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ جھوٹ بولنے پر بھی مجبور ہو رہے ہیں سیٹھ اور سفراء سب لوگ حرج میں مبتلا ہو رہے ہیں اسلام میں تکلیف مالا یطاق جائز نہیں ہے پھر بھی سب لوگ "ان الله لا يكلف نفسا الا وسعها ” پر عمل نہیں کر ہیں ! اب مفتیان کرام کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دار الافتاء سے فتوی جاری کریں ورنہ خدا ہ معاف نہیں کرے گا مقررین اسٹیجوں سے آئمہ حضرات مساجد سے، مدرسین درسگاہوں سے اعلان کریں ورنہ مشقت و پریشانی میں مبتلا ہونے والوں کی بدعا و آہ لگے گی اور سیٹھوں کے کاروبار تباہ و برباد ہو جائے گا کیونکہ کہیں نہ کہیں یہ بھی اس جرم میں شریک ہیں اس لیے رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینے کا انتخاب کریں اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ صرف ایک سال کی بات نہیں ہے بلکہ ہر سال کی بات ہے قیامت تک کی بات ہے اس لیے سسٹم کو تبدیل کرنا بہت ضروری ہے اور مستحقین تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے.
جامعہ ازہر مصر میں زیر تعلیم تھا تو متعدد ممالک کے طلبہ سے "تبرعات ” پر تبادلہ خیال کا موقع ملا تقریبا اکثر ممالک کے طلبہ نے کہا کہ ” محمد ” جس طرح آپ کے یہاں تبرعات یعنی چندہ وصولنے کا طریقہ ہے یہ بالکل گھٹیا طریقہ ہے بلکہ ہمارے یہاں اسلامی تنظیمیں چندے اکٹھا کرتی ہیں پھر وہ مستحقین اداروں اور افراد تک پہنچا دیتی ہیں کبھی بھی علماء، حفاظ، قراء وٍغیرہ کو چندہ وصولنے کے لیے نہیں لگایا جاتا ہے بلکہ ملیشیا کے ایک طالب علم نے کہا کہ اگر علماء چندہ کرتے ہوئے مل جاتے ہیں تو انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے جس میں ملیشیا، انڈونیشیا، تھالینڈ، نیجر، نائیجریا، اوغنڈہ، مالی، لیبا وغیرہ کے طلبہ تھے، اب ہمیں پوری دنیا بالخصوص مسلم ممالک اور ترقی یافتہ اقوام کے بہترین طریقے کو لے کر ” خذ ما صفا و دع ما كدر” کے تحت زکوة کے سسٹم کو بہتر بنانا ہوگا. اور حضور صلی علیہ وسلم، خلفائے راشدین، تابعین، تبع تابعین، نیک مسلم حکمرانوں کے دور میں کس طرح نظام تھا اس کو نافذ کرنا ضروری ہے، بوہرہ، کرسچن، یہودی اور سکھ وغیرہ کے نظام سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ہمارے اکابر اور اہل رسوخ اور ارباب حل و عقد آگے آئیں.ہرگز دیر نہ کریں کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے اور زمہ داران سے پوچھ تاچھ ہوگی.
محمد عباس الازہری…مقیم حال نیرل…