عبادت کسے کہتے ہیں؟

عبادت کسے کہتے ہیں؟ 
مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: عِبَادَت عبدٌ سے بنا ہے بمعنیٰ بندہ، عِبَادَت کے لُغَوِی معنیٰ ہیں بندہ بننا یا اپنی بندگی کا اِظْہَار کرنا جس سے لازِم آتا ہے مَعْبُود کی اُلُوہِیَّت کا اِقْرَار کرنا۔مُفَسِّرین نے اس کی تعریف اِنتہائی تعظیم بھی کی ہے اور اِنتہائی عاجِزی بھی۔دونوں تعریفیں دُرُسْت ہیں کیونکہ عابِد کی اِنتہائی عاجِزی سے مَعْبُود کی اِنتہائی تعظیم لازِم ہے اور مَعْبُود کی اِنتہائی تعظیم سے عابِد کی اِنتہائی عاجِزی مُسْتَلْزَم (ضَروری)۔ اِنتہائی تعظیم کی حَد یہ ہے کہ مَعْبُود کی وہ تعظیم کی جاوے جس سے زیادہ تعظیم نامُمکِن ہو او راپنی ایسی عاجِزی کی جاوے جس سے نیچے کوئی دَرْجَہ مُتَصَوَّر نہ ہو(1)اور عِبَادَت کے اِصْطِلَاحی معنیٰ یہ ہیں کہ کسی کو خالِق یا خالِق کا حِصّہ دار مان کر اس کی اِطَاعَت کرنا۔ جب تک یہ نِیَّت نہ ہو تب تک اسے عِبَادَت نہیں کہا جائے گا، اب بُت پرست بُت کے سامنے سجدہ کرتا ہے اور مسلمان کعبہ کے سامنے، وہاں بھی پتّھر ہی ہیں لیکن وہ مُشْرِک ہے اور ہم مُوَحِّد، ہندو اپنے دیوتاؤں رام چندر وغیرہ کو مانتا ہے مسلمان نبیوں ولیوں کو، پھر کیا وجہ کہ وہ مُشْرِک ہو گیا اور یہ مُوَحِّد رہا۔ فَرْق یہی ہے کہ وہ انہیں اُلُوہِیَّت (مَعْبُود ہونے) میں حِصّہ دار مانتا ہے ہم ان کو اللہ کا خاص بندہ مانتے ہیں۔ (2)
عبادت، اطاعت اور تعظیم میں فرق
پیاری پیاری اسلامی بہنو!عِبَادَت کی شَرْط یہ ہے کہ بَنْدَگی کرنے والا مَعْبُود کو اِلٰه (1)اور اپنے کو اس کا بندہ سمجھے، یہ سمجھ کر جو تعظیم بھی اس کی کرے گا عِبَادَت ہوگی۔ اگر اسے اِلٰه نہیں سمجھتا، بلکہ نبی، ولی، باپ، استاد، پیر، حاکم، بادشاہ سمجھ کر تعظیم کرے تو اس کا نام اِطَاعَت ہو گا۔ توقیر،تعظیم، تَـبْجِیل(عزّت کرنا) ہوگا، عِبَادَت نہ ہوگا۔ غرضیکہ اِطَاعَت وتعظیم تو اللہ تعالی اور بندوں سب کی ہو سکتی ہے لیکن عِبَادَت اللہ تعالی ہی کی ہو سکتی ہے، بندے کی نہیں۔ اگر بندے کی عِبَادَت کی تو شِرک ہو گیا اور اگر بندے کی تعظیم کی تو جیسا بندہ ویسا اس کی تعظیم کا حکْم۔کوئی تعظیم کُفْر ہے؛ جیسے گنگا جمنا، ہولی، دیوالی کی تعظیم۔ کوئی تعظیم اِیمان ہے؛ جیسے پیغمبر کی تعظیم۔ کوئی تعظیم ثواب ہے، کوئی گناہ ۔(2)
مفہومِ عبادت
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!عِبَادَت کا مَفْہُوم بَہُت وسیع ہے اور یہ رَضائے ربُّ الاَنام کیلئے کیے جانے والے ہر کام کو گھیرے ہوئے ہے،جیسا کہ فتاویٰ رضویہ جلد 29 میں ہے:عِبَادَت وہ ہے کہ جس کے کرنے پر ثواب دیا جاتا ہے اور وہ ثواب کی نِیَّت پر مَوْقُوف ہوتی ہے۔تاجُ العَرُوس میں نَقْل کیا:عِبَادَت وہ فِعل ہے جس کے کرنے پر ربّ راضی ہوتا 
ہے۔ (1)لِہٰذا مَعْلُوم ہوا کہ عِبَادَت اپنی مرضی و اِخْتِیار سے کی جاتی ہے، کسی کے مَـجْبُور کرنے سے نہیں۔ چُنَانْچِہ مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن تفسیر نُورُ الْعِرْفَان پارہ 27 سورةُ الذّٰریٰت کی آیت نمبر 56 کی تفسیر میں عِبَادَت کی انہی دو۲ صورتوں یعنی اِخْتِیاری اور اِضْطِرَاری کی وَضَاحَت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عِبَادَتِ اِخْتِیاری:جس پر سزا، جزا مُرَتَّب ہو صِرف جن و انسان کے لیے ہے۔ عِبَادَتِ اِضْطِرَاری ساری مَـخْلُوق کرتی ہے،مگر ان عِبادَات پر جزا نہیں۔ (2)
جن و انس کی عبادت 
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!ہمیں یہ تو مَعْلُوم ہو چکا ہے کہ جن و اِنْس کی تخلیق اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاپنی عِبَادَت کے لیے فرمائی، مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون سی عِبَادَت ہے جو اِبتدائے زمانہ سے لے کر آج تک ہر جن و اِنْس پر لازِم ہے؟ چُنَانْچِہ اس کی وَضَاحَت کرتے ہوئے اِمام فخر الدین رازی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِالْقَوِی تفسیرِ کبیر میں فرماتے ہیں کہ جن و اِنْس کی تخلیق جس عِبَادَت کیلئے کی گئی یہ دو۲ طرح کی ہے: پہلی اُمُورِ باری تعالیٰ کی تعظیم اور دوسری مخلوقِ باری تعالیٰ پر شَفْقَت۔ اِبتدائے زمانہ سے لیکر آج تک کوئی بھی اُمَّت ان دو۲ قسم کی عِبادَتوں سے مستثنیٰ نہیں رہی۔ البتہ! بعض مَخْصُوص عِبادَات ہر اُمَّت میں اپنی وَضْع و ھَیْئَت،قِلَّت و کَثْرَت، زمان و مکان اور شَرَائط و اَرکان کے اِعْتِبَار سے مُـخْتَلِف رہی ہیں۔ مگر باری تعالیٰ 
________________________________
1 –    اِلٰه وہ ہے جسے خالق مانا جائے یا خالق کے برابر ۔  برابری خواہ خدا کی اولاد مان کر ہو یا اس طر ح مستقل مالک ، حاکم ، حی ، قیوم مان کر یا اللہتعالیٰ کو اس کا حاجت مند مان کر ہو ۔  ( علم القرآن ، ص۱۰۷ ) 
2 –     علم القرآن ، ص۱۰۵ ، ملتقطاً
Exit mobile version