(1) جب بھی کوئی شخص عملیات کی دنیا میں پہنچتا ہے ، تو ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص یا تو جادو کا شکار ہے ، یا اس پر جنات سوار ہے. گویا بیماریاں دنیا سے اٹھ چکی ہیں ، پیسہ حاصل کرنے کی غرض سے خواہ مخواہ ہر شخص کو اس وہم میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ وہ مسحور یا آسیب زدہ ہے ، یقینا تمام عامل حضرات ایسا نہیں کرتے ، لیکن ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسےلوگوں کی بھی ہے، یہ جھوٹ دھوکہ کو بھی شامل ہے ، اس لئے گناہ بالائے گناہ ہے ۔
(2) بہت ہی قابل توجہ چیز یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے نہ کہ توڑنے کا ، اور غیب کی باتوں سے اﷲ ہی واقف ہیں ، لیکن عام طورپر عامل حضرات اپنے زیر علاج لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ تم کو فلاں شخص نےجادو کردیا ہے. تم پرتمہارے سسرال والوں کی طرف سے سحر ہے. وغیرہ ،اس طرح کی باتوں کی وجہ سے کئی خاندان بکھر گئے ہیں ، والدین اور اولاد کے درمیان ، ساس اور بہو اور بھائی اور بھائی کے درمیان خلیج حائل ہوگئی ہے ، میاں بیوی کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوچکی ہے.یہاں تک کہ بعض اوقات ماں بیٹی کے تعلقات میں ایسا بگاڑ پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی صورت تک دیکھنے کی روادار نہیں.ﷲ اور اس کے رسول نے ہمیں مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ، لیکن ایسی باتوں کے ذریعہ دل جڑنے کے بجائے ٹوٹتے ہیں ۔
⚡جادو ایک اَن دیکھی چیز ہے ، انسان اس سلسلہ میں یقین نہیں کرسکتا کہ جادو کس نے کیا ہے ؟ بعض دفعہ تو لوگ آنے والوں کی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہیں ، اگر ساس بہو کے تعلقات کشیدہ ہیں ، نند.بھاوج میں کھچاؤ ہے ، یا بھائیوں میں کچھ اختلاف ہے ، تو ان رشتہ داروں کی طرف نسبت کردی جاتی ہے ، اور کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں آدمی فوراً ان کا یقین بھی کرلیتا ہے ، ⚡بعض عامل حضرات بقول ان کے جنوں سے اگلواتے ہیں.جو کہتے ہیں کہ مجھے فلاں شخص نے بھیجا ہے.
⚡جن ایک ایسی مخلوق ہے ، جو انسانوں کے وجود میں سماسکتی ہے ، اس لئے یہ بات ممکن ہے کہ واقعی یہ بولنے والا جن ہی ہو ، لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت انسان جن کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے ، وہ تو اس قدر جھوٹ بولتے ہیں ، اوررائی کو پہاڑ بنانا جانتے ہیں ، تو کیا کسی جن کی بات کی سچائی پر یقین کیا جاسکتا ہے ؟
کہ جن کی فطرت میں ہی شرارت ہے ۔
جادو کرنے کو حدیث میں شرک قرار دیا گیا ہے ، گویا کسی کو جادو گر کہنا یا کس پر جادو کرانے کا الزام لگانا دراصل اس پر کفر یا ایک کفریہ کام میں شرکت کا الزام لگانا ہے ، اور حدیث میں کسی مسلمان کو کافر کہنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے ، اسی لئے فقہاء نے بھی کسی پر کفر کا حکم لگانے میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کرنے کی تلقین کی ہے ، لیکن بعض عامل حضرات کو کسی خاص شخص یا رشتہ دار کی طرف جادو کی نسبت کرنے میں کوئی احتیاط نہیں ہوتی ، اختلاف پیدا ہوتا ہے. اور اختلاف میں شدت بڑھتی جاتی ہے ، یہاں تک بعض دفعہ قتل و خون کی نوبت بھی آجاتی ہے.
عامل حضرات کو چاہئے کہ یا تو صرف مطلوبہ دُعاء بتادیں ، تکلیف کے سبب کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کہیں ، یا اگر سحر یا آسیب بتائیں تو کسی کی نشاندھی سے گریز کریں ، اور صاف کہہ دیں کہ اس کا علم اﷲ کو ہے ، ہم اس سلسلہ میں کوئی صحیح اور یقینی بات نہیں کہہ سکتے