سرکا ر اَہْل مَحَبَّت کا د ُرُود خُود سُنتے ہیں

سرکا ر اَہْل مَحَبَّت کا د ُرُود خُود سُنتے ہیں  

سرکارِ مدینہ ،راحتِ قلب وسینہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے :’’اَسْمَعُ صَلَاۃَ اَھْلِ مَحَبَّتِیْ وَ اَعْرِفُھُمْ وَ تُعْرَضُ عَلَیَّ صَلٰوۃُ غَیْرِھِمْ عَرْضًا،یعنی اہلمَحَبَّت کادُرُود میں  خُود سنتا ہو ں  اور ا نہیں   پہچانتا ہوں  جبکہ دوسروں  کا دُرُود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ (مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات ،ص ۱۵۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قُوَّتِ سماعت اور علمِ غیب کی شان کے کیا کہنے کہ دُنیا کے کونے کونے میں  دُرُود شریف پڑھنے والے اہلِ مَحَبَّت کے دُرُود کو نہ صِرف سماعت فرماتے ہیں  بلکہ ا نہیں   پہچانتے بھی ہیں  ۔مُبارک کانوں  کی شانِ عالی نشان کو بیان کرتے ہوئے خود ارشاد فرماتے ہیں  :’’اِنِّیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَالَا تَسْمَعُوْن،یعنی میں  ان چیزوں  کو دیکھتا ہوں  جن کوتُم میں  سے کوئی  نہیں   دیکھتا اور میں  ان آوازوں  کو سنتا ہوں  جن کو تُم میں  سے کوئی  نہیں   سنتا۔‘‘(الخصائص الکبریٰ،باب الآیۃ فی سمعہ الشریف، ۱/۱۱۳) 
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ سرکارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم 

کی قُوَّتِ سماعت وبَصارت بے مثال اور مُعْجزانہ شان رکھتی تھی۔ کیونکہ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دُورو نزدیک کی آوازوں  کو یکساں  طور پر سن لیا کرتے ہیں  ۔

دُور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کان لَعلِ کرامت پہ لاکھوں  سلام     (حدائقِ بخشش،ص۳۰۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں  چاہئے کہ ہم بھی تاجدارِ رسالت، شہنشا ہ نَبُوَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ بابرکت پر بکثرت دُرُود و سَلام پڑھتے رہا کریں  اور بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے فَیضیاب ہوتے رہیں  جو خُوش نصیب رحمتِ عالمیان ،مکّی مَدَنی سلطان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر دُرُودِ پاک پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں  ان پر نوازشات کی ایسی بارشیں  ہوتی ہیں  کہ دیکھنے والے مارے حیرت کے اَنگُشْت بَدنْداں  رہ جاتے ہیں  ۔ چُنانچہ اس ضِمن میں  ایک اِیمان اَفروز حکایت سُنئے اور مارے حیرت و مُسرت کے سر ُدھنئے۔

باکمال مَدَنی مُنّی

حضرت سَیِّدُناشَیْخ محمد بن سُلَیْمان جَزُوْلی  عَلَیْہِ رَحْمۃُ اللّٰہِ الْوَلِیْ فرماتے ہیں  : ’’میں  سَفَر میں  تھا، ایک مَقام پر نماز کا وَقْت ہو گیا، وہاں  کُنواں  تو تھا مگر رَسّی اور ڈَول نَدارَد (ڈول اور رَسّی موجود نہ تھی) میں  اسی فِکْر میں  تھا کہ ایک مکان کے اُوپر سے ایک مَدَنی مُنِّی نے جھانکا اور پوچھا:’’ آپ کیا تلاش کر رہے ہیں  ؟‘‘ میں 

 نے کہا:’’ بیٹی! رسّی اور ڈَول۔ ‘‘اُس نے پو چھا: ’’آپ کا نام؟ ‘‘فرمایا: محمد بن سُلَیْمان جَزُوْلی۔ مَدَنی مُنّی نے حیرت سے کہا: ’’اچّھا آپ ہی ہیں  جن کی شُہْرت کے ڈَنْکے بج رہے ہیں  مگرحال یہ ہے کہ کُنویں  سے پانی  نہیں   نِکال سکتے! ‘‘یہ کہہ کر اس نے کُنویں  میں  تُھوک دیا۔ کمال ہوگیا! آناً فاناً پانی اُوپر آگیا اور کُنویں  سے چَھلکنے لگا۔ آپ رَحْمۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہنے وُضُو سے فراغت کے بعداُس باکمال مَدَنی مُنِّیسے فرمایا: ’’بیٹی! سچ بتاؤ تم نے یہ کَما ل کس طرح حاصِل کیا؟‘‘ کہنے لگی: ’’یہ اُس ذاتِ گرامی پر دُرُود پاک کی بَرَکَت سے ہواہے اگروہ جنگل میں  تشریف لے جائیں  تودَرندے، چرندے آپ کے دامَن میں  پناہ لیں ۔ ‘‘آپ رَحْمۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں  : ’’اس باکمال مَدَنی مُنّی سے مُتَأَثِّر ہوکر میں  نے وہیں  عہد کیا کہ میں  دُرُود شریف کیمُـتَـعَلِّق کِتاب لکھوں  گا۔ ‘‘ (سعادۃ الدارین، الباب الرابع، اللطیفۃ الخامسۃ عشرۃ بعد المائۃ، ص۱۵۹ مفہوماً) چُنانْچِہ آپ رَحْمۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہنے دُرُود شریف کے بارے میں  کِتاب لکھی جو بَہُت مقبول ہوئی اور اس کِتاب کا نام ’’دَلائِلُ الْخَیْرات‘‘ ہے ۔  (حسینی دولہا،ص۱ )

صالِحِین کا ذِکْر باعثِ رَحْمت ہے

حضرتِ سیِّدُنا سُفْیان بن عُیَیْنَہ رَحْمۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں  : ’’عِنْدَذِکْرِ الصَّالِحِیْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ،یعنی نیک لوگوں  کے ذِکر کے وَقت رَحمت نازِل ہوتی ہے۔‘‘ (حِلیۃُ الاولیاء، ۷/۳۳۵، رقم :۱۰۷۵۰) آئیے ہم بھی حُصُولِ بَرَکت 

اورنُزُولِ رَحمت کے لئے صاحبِ دَلائِلُ الْخَیْرات کا کچھ تذکرہ سُنتے ہیں  ۔

صاحبِ دَلائِلُ الْخَیْرات فَنافی المُصْطفیٰ ، سَنَدُ الْاَصْفِیَا، عارفِ کامل ، قطبُ الاَقْطاب، وحیدُ الدَّہر، فَرید الْعَصر، شیخ ، امام ابُوعبداللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِکا نامِ نامی اسمِ گرامی محمد، والد کا نام عبدالرحمن، جب کہ دادا کا اسمِ گرامی ابوبکر بن سلیمان ہے۔تاریخ میں  بہت سے ایسے بزرگ ملتے ہیں  جن کی نِسبت والد کی بجائے جَدِّاَعلیٰ کی طرف ہوتی ہے،حضرت سَیِّدُنا امام جَزُوْلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ القوی کو بھی بالعموم ان کے والد کے دادا جان حضرتِ سلیمان کی طرف مَنْسُوب کر کے محمد بن سلیمان کہا جاتا ہے۔
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ ۸۰۷ ؁ھ بمطابق 1404؁ء کو ملکِ مراکش کے مقام’’ سَوس‘‘ میں  پیدا ہوئے۔آپ حَسَنیسَیِّدہیں  ، اکیس واسِطوں  سے آپ کا سلسلۂ نَسب حضرت سَیِّدُنا امام حَسَن مُجتبیٰرضی اللّٰہ تعالی عنہ سے ملتا ہے ۔ نیز آپ مَذْھباً مالکی (یعنی حضرتِ سَیِّدُنا امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْخَالِق کے مُقَلِّد) اور مَشْرَباً(یعنی طریقت کے اِعتبارسے) شاذلی تھے۔ 
حضرتِ سَیِّدُناامام محمد بن سُلیمان جَزُوْلی عَلَیْہ رَحمۃُ اللّٰہ الْقَویخُوش عَقیدہ بُزُرگ تھے جن کا تعلُّق اَہلِ سُنَّت و جماعت سے تھا۔آپ ذاتِ باری تعالیٰ کے حوالے سے بڑا ٹھو س عَقیدہ رکھتے تھے اور آپ نے جابجا اللّٰہتعالیٰ کی ذات و صِفات اور اس کی قُدْرتِ کاملہ کا بڑے حسین پیرائے میں  ذِکر کیا ہے۔ دَلائِلُ

 الْخَیْراتشریف بُنْیادی طور پر دُرُود و سلام کا مَجمُوعہ ہے مگر اس کے ضِمن میں  اللّٰہ تعالیٰ کی صِفات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ دُرُود پڑھنے والے کے دل میں  اللّٰہ تعالیٰ کی عَظْمَت و شان اور اس کا جَلال وکَمال راسِخ ہو جاتا ہے۔

آپ ہمہ وَقت اَوْراد و وظائف میں  مَشْغول رہتے، ہرمُعامَلہ میں  اللّٰہ تعالیٰ کی طرف دھیان رکھتے، کتاب و سُنَّت  پر سختی سے کاربند اور حُدُودِ الہٰی کی پاسبانی کرنے والے تھے، باِلاخر آپ کی نیکی اوربُزُرگی کی دُھوم مچ گئی اور خلقِ خدا آپ سے فَیضیاب ہونے لگی۔آپ دن رات میں  ڈیڑھ قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے، بِسْمِ اللّٰہ شریف کا وَظِیفہ پڑھتے نیز شب و روز میں  دو مرتبہدَلائِلُ الْخَیْرات ختم کرنابھی روز کے معمولات میں  شامل تھا۔
حضرتِسَیِّدُنا شیخ محمد بن سلیمان جَزُوْلی عَلَیْہ رَحمۃُ اللّٰہ الْقَوی سلسلۂ شاذلیہ میں  بَیْعَت کے بعد چودہ سال تک خَلْوَت گزیں  رہ کر عِبادت و رِیاضت اور منازلِ سُلوک طے کرنے میں  مشغول رہے۔ چودہ سالہ طویل خَلْوت کے بعد نیکی کی دَعوت کو عام کرنے اور خلقِ خُدا کی ہدایت کے لیے آپ نے جَلْوَت اِختیارکی ، آسِفی شہر کو آپ نے اپنی دینی سرگرمیوں  کا مَرکز بنایا اورمُریدین کی تَربیت و ہِدایت کا کام سر اَنجام دینا شُروع کیا۔ بے شُمار لوگ آپ کے دَستِ حق پَرَست پر تائِب ہوئے اور آپ کا چرچا دُنیا بھر میں  پھیل گیا، آپ سے بیشمار عظیم کرامات اور حیرت اَنگیز خَوارِق رُونما ہوئے، آپ کے مَناقب اورکَمالات

 میں  غور کرنے سے عَقْلِ انسانی دَنگ رہ جاتی ہے۔

صاحبِ دَلائِلُ الْخَیْرات حضرتِ سَیِّدُناشیخ محمد بن سلیمان جَزُوْلی عَلَیْہ رَحمۃُ اللّٰہ الْقَوِیکا اِمتیازی وَصف عِشْقِ رسول صَلّٰی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے۔ آپ تَحدیثِ نعمت کے طور پر اپنے عشق کی کیفیت کو دَلائِلُ الْخَیْرات شریف میں  یوں  بیان فرماتے ہیں:’’وَنَفَیْتَ عَنْ قَلْبِیْ فِیْ ھٰذَاالنَّبِیِّ الْکَرِیْمِ الشَّکَّ وَالْاِرْتِیَابَ وَغَلَّبْتَ حُبَّہُ عِنْدِیْ عَلٰی حُبِّ جَمِیْعِ الْاَقْرِبَاءِوَ الْاَحِبَّاءِ، ’’یعنی اے اللّٰہ ! تو نے میرے دل کو اس نبیِّ کریم صَلّٰی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بارے میں  ہر قسم کے شَک وشُبْہہ سے دُور رکھا ہے اور آپ کیمَحَبَّت کو میرے نزدیک تمام رِشتہ داروں  اور پیاروں  کیمَحَبَّت پر غالب کردیا ہے۔‘‘آپ رَحْمۃُ اللّٰہ تعالی علیہکے عشقِ رسول کے نظارے دَلائِلُ الْخَیْرات شریف میں  جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں  ۔
آپ کی ساری عُمر حُضُور نبیِّ کریم صَلّٰی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود پڑھتے، دُرُود شریف کی ترغیب دیتے اور دُرُود شریف کی نَشْرو اِشاعت میں  گزری۔

دُرُود خواں  کا بدن مٹی
 نہیں   کھا سکتی

صدرُ الشَّریعہ ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علَّامہ مولانا محمد اَمجد علی اَعظمی علیہ رَحمۃُ اللّٰہ الْقَویبہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 114پر فرماتے ہیں  :’’وہ لوگ کہ(جو) اپنے اَوقات دُرُود شریف میں  مُستغرق رکھتے ہیں  ان کے بدن کومَٹِّی  نہیں   کھاسکتی۔‘‘

77سال بعد بھی جسم سلامت تھا

حضرتِ سَیِّدُنا شیخ محمد بن سلیمان جَزُوْلی عَلَیْہ رَحْمۃُ اللّٰہ الْقَوِینہ صرف خود رحمت ِ عالمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود وسلام کی کثرت فرماتے تھے بلکہ آپ کے مرتَّب کردہ مجموعۂ درود ’’دَلائل الْخَیرات ‘‘کی مدد سے دنیا بھر میں  دُرُودو سَلام پڑھا جاتاہے ۔چنانچہ وصال کے ستتر (77) سال بعد جب آپ کو قَبر سے نکالا گیا تو آپ کا جسمِ مُبارک بالکل ترو تازہ تھا، جیسے آج ہی دَفن کیاگیاہو، اتنی طویل مُدَّت گزر جانے کے باوجود آپ کا جسم مُتَغَیَّر نہ ہوا تھا۔ آپ کی داڑھی اور سر کے بال ایسے تھے، جیسے آج ہی حجام نے آپ کی حَجامت بنائی ہو۔ایک شخص نے آپ کے چہرے کواُنگلی سے دبایا تو اس کی حیرت کی اِنتہا نہ رہی کہ اس جگہ سے خُون ہٹ گیا اور جب اُنگلی اُٹھائی تو خُون پھر اپنی جگہ لوٹ آیا، جیسے زِندوں  کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ 

مزارِ پُر اَنوار سے کَسْتُوری کی خُوشبُو

مراکش میں  آپ کا مزار مَرجعِ خَلائق ہے۔ مزار پر بڑے رُعب و جَلال کا سَماں ہے، لوگ زِیارت کے لیے جُوق در جُوق حاضِری دیتے ہیں  اور دَلائِلُ الْخَیْرات شریف کا بکثرت وِرْد ہوتاہے۔شاید یہ دُرُود شریف ہی کی برکت ہے کہ آپ کی قبرِ اَطہر سے کَستُوری کی مہک آتی ہے۔

آپ کی ذات مرجعِ خَلائق تھی، مُریدین کے علاوہ بھی ہزاروں  اَفراد آپ کی زِیارت و ملاقات کے لیے حاضِر ہوتے تھے۔آپ کے عام مُریدین کا تو کیا شُمار، خَواص کی تعداد بھی ہزاروں  میں  تھی۔ یہاں  تک کہ آپ کے فَیض یافتہ مُریدین میں  سے بارہ ہزار چھ سو پینسٹھ (12665) تو ایسے کامل تھے کہ مقامِ ولایت پرمُتَمَکِّن ہوئے اور اپنی اپنی اِسْتعداد کے مُطابق قُربِ الہٰی کے اَعلیٰ مَقامات پر فائز ہوئے۔

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بَیْعت کی اَہَمِّیَّت

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! تاریخِ اسلام کے مُطالَعے سے پتاچلتاہے کہ تقریباً تمام اولیاءے کرام رَحِمَھُمُ اللّٰہ نے راہِ سُلُوک طے کرنے کیلئے کسی پیرِ کامل کے ہاتھ پر بَیعت کی بلکہ خود ہمارے گیارہویں  والے آقا،سردارِ اولیاء حُضُور سَیِّدُناغوثِ اَعظم دَسْت گیرعَلَیْہِ رَحْمَۃُاللّٰہ الْقَدِیر نے بھی حضرت سَیِّدُناشیخ ابوسعید مُبارک مخزومی علیہ رَحْمۃُ اللّٰہ الْقَوِی کے دستِ حق پرست پر بیعت فرمائی۔ہمیں  بھی چاہیے کہ کسی نہ کسی جامعِ شرائط پیرِ کامل کے مُرید بن جائیں ۔
 اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ قُرآنِ پاک میں  ارشاد فرماتا ہے۔
یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِہِمْ ترجمہ کنزالایمان:جس دن ہم ہر
(پ۱۵،بنی اسرائیل :۷۱) جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں  گے ۔ 
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مُفْتی احمد یار خان علیہ رَحمۃُ الحنّان ’’نورُالعرفان‘‘ میں  اس آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں  : ’’اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں  کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہئے شَرِیْعَتمیں  ’’تَقْلِیْد‘‘ کرکے اور طَریْقَت میں  ’’بَیْعَت‘‘کرکے ، تاکہ حَشْر اچھوں  کے ساتھ ہو۔ اگر صالح امام نہ ہوگا تو اس کا امام شیطٰن ہوگا۔ اس آیت میں  تَقْلِیْد ، بَیْعَتاور مُریدی سب کا ثُبوت ہے۔ ‘‘(تفسیر نورالعرفان ،ص۷۹۷)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آج کے پرفِتن دور میں  پیری مُریدی کا سلسلہ وسیع تر ضَرور ہے، مگر کامل اور ناقِص پیر کا اِمتیاز مُشکل ہے۔ یہ اللّٰہ عَزَّوجَلَّ کا خاص کرم ہے کہ وہ ہر دور میں  اپنے پیارے مَحبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت کی اِصلاح کیلئے اپنے اَولیاء کرام رَحِمہُم اللّٰہ السَّلام ضَرور پیدا فرماتا ہے۔ جو اپنی مومنانہ حِکمت وفَراست کے ذریعے لوگوں  کو یہ ذہن دینے کی کوشش فرماتے ہیں  کہ ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں  کی اِصلاح کی کوشش کرنی ہے۔‘‘(اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ )
فی زمانہ مرشدِکامل کی ایک مثال بانیِ دعوتِ اسلامی، شیخ طریقت امیرِ اَہلسنَّت حضرتِ علامہ مولانا ابوبلا ل محمد الیاس عطّارقادری رَضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ

 ہیں  ، جن کی نگاہِ ولایت نے لاکھوں  مسلمانوں  بالخُصوص نوجوانوں  کی زندگیوں  میں  مَدَنی اِنقلاب برپا کردیا۔آپ  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سلسلہ ٔعالیہ قادِریہ رَضویہ میں  مُرید کرتے ہیں  اور قادری سلسلے کی تو کیا بات ہے کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللّٰہ تعالی عنہ فرماتے ہیں  !’’میرا مُرید چاہے کتنا ہی گناہ گار ہو (ااِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ) وہ اس وقت تک  نہیں   مَرے گا ،جب تک توبہ نہ کرلے۔ ‘‘ (آدابِ مرشد کامل، ص ۲۲)

جوکسی کا مُرید نہ ہو اُس کی خِدمت میں  مَدَنی مشورہ ہے! کہ اپنی دنیا و آخرت کی بہتری کے لئے اس زمانے کے سلسلۂ عالیہ قادِریہ رَضویہ کے عظیم بزرگ شیخ طریقت ، امیرِاہلسنَّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا مُرید ہوجائے۔ یقیناً مُرید ہونے میں  نُقصان کا کوئی پہلو ہی  نہیں   ، دونوں  جہاں  میں  اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  فائدہ ہی فائدہ ہے ۔ 
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اللّٰہتعالیٰ ہمیں  اپنے نیک بندوں  کا دامن عطا فرمائے ،اچھوں  کے صَدقے ہمیں  اچھا بنائے اور ہمیں  پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کثرت سے دُرُود ِپاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہ النَّبِیِّ الاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭…٭…٭…٭

Exit mobile version