(۱)اس سال پورے ملک میں ہر طرف امن و امان کی فضا پیدا ہو گئی اور زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا اور زکوٰۃ کی وصولی کے لئے عاملین اور محصّلوں کا تقرر ہوا۔(2)
(زرقانی ج۳ ص۱۰۰)
(۲)جو غیر مسلم قومیں اسلامی سلطنت کے زیر سایہ رہیں ان کے لئے جزیہ کا حکم نازل ہوا اور قرآن کی یہ آیت اتری کہ
حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنۡ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوۡنَ ﴿٪۲۹﴾ (3)(توبہ)
وہ چھوٹے بن کر ”جزیہ” ادا کریں
(۳)سود کی حرمت نازل ہوئی اور اس کے ایک سال بعد ۱۰ھ میں ”حجۃ الوداع” کے
موقع پر اپنے خطبوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کا خوب خوب اعلان فرمایا۔
(بخاری و مسلم باب تحریم الخمر)
(۴)حبشہ کا بادشاہ جن کا نام حضرت اصحمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔ جن کے زیر سایہ مسلمان مہاجرین نے چند سال حبشہ میں پناہ لی تھی ان کی وفات ہو گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا مانگی۔(1)
(۵)اسی سال منافقوں کا سردار عبداﷲ بن ابی مر گیا۔ اس کے بیٹے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی درخواست پر ان کی دلجوئی کے واسطے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس منافق کے کفن کے لئے اپنا پیرہن عطا فرمایا اور اس کی لاش کو اپنے زانوئے اقدس پر رکھ کر اس کے کفن میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بار بار منع کرنے کے باوجود چونکہ ابھی تک ممانعت نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھائی لیکن اس کے بعد ہی یہ آیت نازل ہو گئی کہ
وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ اِنَّہُمْ کَفَرُوۡا بِاللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَمَاتُوۡا وَہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۸۴﴾ (2)
(اے رسول) ان (منافقوں) میں سے جو مریں کبھی آپ ان پر نمازجنازہ نہ پڑھئے اور انکی قبر کے پاس آپ کھڑے بھی نہ ہوں یقینا ان لوگوں نے اﷲ اوراسکے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور کفر کی حالت میں یہ لوگ مرے ہیں۔(توبہ)
اس آیت کے نزول کے بعد پھر کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی منافق کی
نماز جنازہ نہیں پڑھائی نہ اس کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے۔ (1)
(بخاری ج۱ ص۱۶۹ و ص۱۸۰ و زرقانی ج۳ ص۹۵ و ص۹۶)