آبروئے علومِ رضا: حضور شیخ الاسلام
مناظر اہل سنت حضرت علامہ پیر سید مظفر شاہ صاحب ،پاکستان
اللہ کی حمد و ثنا اورنبی کریم صاحب صد تکریم ،باعث تخلیق ارض وسماءﷺکی بارگاہ مقدسہ میں انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ درود وسلا م پیش کرنے کے بعد تمام تعریف اور تمام ترمحاسن و مکارم صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہے۔ حضور رئیس المحققین ، عمدۃ المحدثین ، زبدۃ الفقہاء،حضور شیخ الاسلام سیدی و آقائی حضرت قبلہ سید محمد مدنی میاںصاحب دامت برکاتہم العالیہ، اور اسٹیج پرجلوہ گر آپ ہی کے خاندان کےتمام چشم و چراغ اور یہاں پر موجودآپ کے خلفاء و مریدین منتسبین محبین اور سلسلہ عالیہ اشرفیہ سے منسلک تمام حضرات!
ہمارے لیے یہ لمحہ قابل حیرت بھی ہے اور محبت و سرور کاغلبہ میرے دل پہ ایسا ہے کہ میرے کلمات میرے جذبات کا ساتھ نہیں دے رہے ہیںکہ حضور شیخ الاسلام سید نامدنی میاں دامت برکاتہم العالیہ کی موجودگی میں حجۃ اللہ علی الرض، حضورمحدث اعظم ہند کچھوچھوی علیہ الرحمۃ ولرضوان کے فضائل و مناقب ذکر کرنے کا مجھے شرف حاصل ہورہا ہے۔ اور حضور شیخ الاسلام کی 50سالہ گرانقدر خدمات جس پر مجھ سے قبل فاضل علماء بڑے خوبصورت انداز میں اپنے اپنے تاثرات اور اپنی اپنی عقیدت کو بڑے اعتدال کے ساتھ دلائل کے ان تمام نظم کا لحاظ رکھتے ہوے اآپ کی خدمت میں پیش کر رہے تھے۔
عن ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ الناس معادن کمعادن الذھب و الفضہ خیارھم فی الجاھلیہ و خیارھم فی الاسلام اذا فقھوا۔ او کماقال رسول اللہ ﷺ۔ رواہ مسلم
امام مسلم نے اپنی صحیح میںنقل کیا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : لوگوں کی مثال کان کی مانند ہے ۔لوگ کانوں کی طرح مختلف ہوتے ہیں جس طرح کچھ سونے کی کانیں ہوتی ہیں کچھ چاندی کے ۔صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے۔ہم جس کاحوالہ دیتے ہیں اس کا نام بھی بتاتے ہیں ۔کیا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی ’بستان المحدثین‘ آپ کو یاد نہیں ! امام جلال الدین سیوطی اورعلامہ قسطلانی کا ’مناقشہ‘ آپ کو یا د نہیں،شاگرد ہونے کے ساتھ خصائص الکبرٰی سے ساری عبارتیں لیکرانہوں نے ’مواہب الّلدنیہ‘ لکھ دی۔ جب امام کو پتہ چلا ناراض ہوگئےاور اتنے شفیق امام مرتے دم تک اس سے بات نہ کیا ۔اور یہ علمی خیانت ہے ۔ جو علمی تسلسل کو ذکر کرے اسی کو مجدد کہتے ہیں۔اور یقینا جوعقائد کے تحفظ کے ساتھ ان باتوں کو آگے بڑھائے او راس کو من و عن آگے پہنچاے ٔاور پچھلوں کی بات کو آگے پہنچانے کاجوذریعہ بنے میں اس مجمع میں کہتا ہوں اسی کو شیخ الاسلام مدنی میاں کہتے ہیں۔یہ مبالغہ غیر حق نہیں ہے۔ اب ذار سنیے میری بات کو ،ذرا توجہ سے سنیے۔ مجھے حضور مدنی میاںسے محبت ہے۔یقیناً آپ سادات ہیں،آپ اولاد غوث اعظم ہیںیہ اپنی جگہ پر ہے، یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔لیکن ہم مولوی بھی ہیں،کیاہیں ؟ہم مولوی بھی ہیں ۔ لیکن حضور شیخ الاسلام کی تحقیقات اور آپ کی تنقیدا ت اور آپ کی جرح و تعدیل پر مبنی کتابیںاور آپ کا اندازۂ قبض و بسط کودیکھا گیا تو یقیناوہی چیز نظر آئی جو امام احمد رضا نے جس فکر کے ساتھ با شرع لوگوں کی تعلیمات کو جس اعتبار سے مضبوط بند شروع کیا تھا اس کا وافر حصہ شیخ الاسلام کو عطا ہوگیا ہے۔
یقیناً کیا کتابت نسوں پر ان کا محدثانہ انداز نہیں؟ میں نے زمانۂ طالب علمی میں حضور غازی ملت کے صاحبزادے مولانا نورانی صاحب ان کے ہاتھوں سے بغداد شریف میں وہ کتاب لی اور اس کا مطالعہ کیا۔ جناب! ہمیں توکچھ پتہ نہیں کہ فن حدیث میں استدلال کے کیا طریقے ہوتے ہیں۔ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے ، میرا ایک انفرادی حصہ ہے ،میری ایک ذاتی رائے ہےآپ قبول کرنا چاہیں کریں نہ کرنا چاہیں نہ کریں ۔ استادوں نے پڑھا دیا اور منبر پر بٹھا دیا ۔ ٹانگیں کانپتی ہیں کہ منہ چھوٹا اور ترجما ن بڑوں کا بن گیا! آج بھی جب ہم میڈیا پر بیٹھتے ہیں واللہ العزیزدو رکعت نماز ادا کرکے بارگاہ غوثیت میں عرض کرتے ہیں حضور ! ہماری کوئی حیثیت نہیں مگر بیٹھے غیروں کے ساتھ ہیں لاج آپ کو رکھنی ہے۔میرے دوستواگر حدیث کی آپ بات کریں ، فن حدیث کی بات کریں تو جہاں پر ایک حدیث کے طالب علم کو جہت استدلال اور انداز استدلال اور فہم فن اسماء الرجال کی تمیز میرے امام اہل سنت کے’’ مونے العین‘‘ سے آتی ہے وہیں پر دین کے اثاثہ کو بچانے کا انداز آپ کی مقدس کتاب’ ’کتابت نسواں‘‘ سے آتی ہے ۔اس طریقے کے ساتھ حضور شیخ الاسلام نے امام اہل سنت کے علم کی آبرو کی تحفظ کیا ہے۔اور جس طرح حضرت مدنی میاں قبلہ نے اس مسئلے کا جواب دیا حضور قبلہ مفتی شجاعت علی قادری صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو پاکستا ن کے بڑے نامور شخصیت تھی، مسائل افتاء کے اندر اور مدارس کے اندر ، تدریسی معاملات کے اندراور افتاء کے معاملات کے اندر بلا مبالغہ اکثر حصہ اہل سنت کا ان سے استفادہ کرتاتھا، حضور غزالی زماں کے پروردہ تھے ۔ آپ نے خود لکھا کہ’’ اس مسئلے کو لکھنے کے بعد میری توجہ امام احمد رضا کے مقام کے تحفظ کے لیےجس کی طرف پڑی تھی وہ کچھوچھا کا سید شاہ مدنی تھا ‘‘۔ یہ ایک وجہ ہےہمارا نذرانئہ عقیدت کے لیے دل کو جھکانا۔ یہاں علماء کرام بیٹھے ہیں ،
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
اس سے آپ سمجھ لیجیے ۔ سیدھی بات ہے ، ہم بھائی سیدھے سیدھے جو ہمارے عقیدے کو بچائے گا ہم اس کی واہ واہ کرینگے ، جو ہمیں پچھلوں کا درس صحیح انداز میں دینگے ہم اس کی واہ واہ کرینگے ، ہمارے اساتذہ نے جو ہمیں اصول سکھایا ہے جو اندازِ استنباط و استخراج سکھائے گا ہم اس کی واہ واہ کرینگے ۔اصول الشاشی ہم نے پڑھ لی، نور الانوار پڑھ لی ، نخبۃ الفکر پڑھ لی، نظام اعتدال کو دیکھ لیا، تہذیب التہذیب کو بھی دیکھ لیا تحقیق کے سارے طریقے لیکن جہتیں یہاں سے متعین ہوگئیں۔جرح و تعدیل کے اندر جو سنجیدگی تھی اور اندا ز جو اپنے ختم پر لانا ہے اس میں ذکاوت و فطانت کا ملکہ ہمیں اس کتاب سے ملتا ہے۔
انسان کی عظمت وفضیلت دو طریقوں سے ہوتی ہے ایک حسب دوسرا نسب ۔محد ث اعظم کچھوچھوی علیہ الرحمہ اور شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں صاحب قبلہ نےجو جرات و بے باکی والا کام کیا اس کو بہت جلد ی مقبولیت ملی اس لیے کہ آپ سید ہیں ، یہ نسب کی برکت ہے۔آپ کے پاس نسب بھی ہے حسب بھی ہے۔حضرت سید مدنی میاں کا علم و تقوی اعلی ہے۔
نوٹ :مورخہ 6،5 مارچ 2011 ء۔بمقام واگھراضلع بھروچ گجرات ۔ دو روزہ انٹرنیشنل محدث اعظم کانفرنس میں علامہ صاحب کی تقریر کے چند اقتباسات قارئین کے نذر ہے۔