شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کی تحریرات روح ودل کیلئے ابرگہر بار

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کی تحریرات روح ودل کیلئے ابرگہر بار

از: حضرت مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ ،
 دارالافتاء جامعہ نظامیہ ، و نائب ناظم مرکز تحقیقات اسلامیہ

حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ا اللہ سبحانہ وتعالی کے محبوب ترین ومقرب ترین بندے اور نبی آخر الزماںخاتم النبیین امام الانبیاء والمرسلین ونبی الانبیاء ہیں بفحوائے حدیث پاک کنت نبیا وادم بین الماء والطین کی شان رکھتے ہیں ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ پر کلام الہی نازل فرمایا اور دین اسلام کے نور کی تکمیل فرمائی ،اسلام کی روشنی بحروبر ،دشت وجبل میں پھیل گئی ، ساری دنیا اسلام کے نور سے روشن ومنور ہوگئی ،اس طرح اسلام کا آخری پیغام دنیا کے تمام خطوں میں پہنچ گیا، یوں تو دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا میں کئی انقلابات برپا ہوئے ، کہیں سماجی انقلاب آیا تو کہیں روحانی،کہیں مذہبی واخلاقی انقلاب آیاتو کہیں سیاسی ،کہیں تہذیب وتمدن بدلے تو کہیں مادی عروج وترقی پھیلا ،لیکن نبی آخر الزماںسیدنا محمد رسول اللہ ا کی بعثت مبارکہ سے جو دنیا میں انقلاب آیا وہ ایسا عظیم انقلاب تھا کہ جس سے زندگی کے سارے گوشوں میں تبدیلی آئی اور زندگی کی تمام جہتیں اس عظیم انقلاب کے زیر سایہ آگئیںاور ایک مکمل نظام حیات کے طور پر یہ بالکل اول وآخر انقلاب تھا ،خود پرستی وبت پرستی کے ماحول میں خدا پرستی کا نظام قائم ہوگیا اور دنیا سے کفر وشرک کی ظلمتیں چھٹیں اور نور توحید نے اپنا اجالا پھیلایا ،ظاہر ہے کہ اسلام دشمن قوتیںاور طاغوتی طاقتیں اس انقلاب سے خوش نہیں ہوسکیں اورنورِ توحید سے اپنے سینوں کو منور کرنے کے بجائے انہوں نے اسلام کے نور کو بجھانے اور اس عظیم انقلاب کو مٹانے کی پیہم جدوجہد میں مصروف ہوگئیں، اسلام ،پیغمبرِ اسلام اور اہلِ اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ،تن من دھن کی بازی لگاکر اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ان نامسعود کوششوں کے ذریعہ اسلام دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت ہونے نہیں دیا،اہلِ اسلام کی راہوں میں کانٹے بچھائے ، رکاوٹیں کھڑی کیں ،الحاصل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نت نئی سازشوں کے جال پھیلائے اور اہل اسلام کو اس جال میں پھانسنے کی کوشش کرتے رہے اور یہ ان کی مخالف اسلام کوششیں صدر اسلام سے لگاتار جاری وساری ہیں ،آئے دن اسلام ، پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کو رسوا کرنے او ر ضرر ونقصان پہونچانے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں،دنیا کے سارے باطل مذاہب ، سارے باطل پرست اقوام وملل اپنے اپنے اعتقادات واعمال ،تہذیب وتمدن،علاقہ وزبان مختلف اور ایک دوسرے کے قریب ترین دشمن ہونے کے باوجود اسلام اورپیغمبر اسلام ہادیٔ عالم اکی مخالفت میں سب کے سب متحد اور ایک آواز ہیں۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
لیکن ان کی ان تمام تر مخالفانہ جدوجہد کے باوجود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسلام کے چراغ کو ایسا روشن ومنور کردیا کہ پوری کائنات نور توحید سے روشن ومنور ہوگئی ،اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نے براہ راست ہر ایک فطرت سلیمہ رکھنے والے کے دل پر دستک دی ،کیا امیر کیا غریب ،کیا بادشاہ کیا فقیر ،کیا کالے کیا گورے ،کیا چھوٹے کیا بڑے، کسی خاندان وقبیلہ رنگ ونسل،علاقہ وزبان کی تخصیص کے بغیراسلام نے ہر ایک کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دی ،اس صورت حال میں دشمنان اسلام نے اپنے آپسی اختلاف کے باوجود سر جوڑکر اسلام کے خلاف کی جانے والی اپنی کوششوں کابڑی گہرائی سے جائزہ لیا ،اپنی ناکامی کے اسباب وعلل پر ان کے اپنے خیال کے مطابق دانشمندوں سے مشورہ ہوئے اور اس بات پر بڑی شدت کے ساتھ غور وخوض ہوا کہ ہم سب کی متحدہ ومشترکہ مخالف اسلام کوششوں کے باوجودآخر اسلام کی ترقی کا راز کیا ہے؟ اسلام کے اندرآخروہ کونسی خوبی ہے جو انسانی دلوں کو مسخر کررہی ہے ؟ پیغمبر اسلام (ا)کی سیر ت(طیبہ) میں آخروہ کونسی کشش ہے جو انسانی دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور انسانی قلوب میں انقلاب برپا کررہی ہے؟بڑے غور اور تدبر کے بعد بالاخروہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ اس کی بنیا وواساس نبی آخر الزماں سیدنا محمد رسول اللہ (ا)کی ذات اقدس ہے ، اسی ہستی نے اسلام کے آفاقی پیغام اور اس کی ابدی حقیقتوں کو اپنی پاکیزہ عملی زندگی اور پیغام رشد وہدایت کے ذریعہ عام فرمایا ہے ،ان کی مجاہدانہ دردمندانہ ومخلصانہ کوششوں کی کوئی اورمثال تاریخ پیش نہیں کرسکتی ،زمین پر اللہ سبحانہ کے بنائے ہوئے بلند وبالا اور مضبوط پہاڑ جو استقامت اپنے اندر رکھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اسلام کے پیغام رحمت کو سارے عالم میں عام کرنے کیلئے آپ انے استقامت دکھائی اور اپنے اعلیٰ اخلاق ومحاسن سے اپنے تو اپنے غیروں کے بھی دل جیتے ،اس راز سربستہ کے منکشف ہونے کے بعد دشمنان اسلام نے یہ محسوس کیا کہ ان کے ماننے والے آپ اسے بے پناہ عقیدت ومحبت رکھتے ہیں ،سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن محمد رسول اللہ اپرکوئی انگلی اٹھاتا ہے تووہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتے،اس لئے یہ طئے کرلیا کہ ترجیحی طور پر ہماری کوششیں پیغمبر اسلام کی عظمت ومحبت کو انسانی دلوں سے نکالنے میں صرف ہوں،اس کے بغیر ہم اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے ،اس حقیقت کو پاجانے کے بعد ان کی ساری جدوجہد اس بات پر مرکوز ہوگئی کہ کسی طرح پیغمبر اسلام اکے خلاف موقع بموقع زہر افشانی کی جائے ،اور ان کی زندگی کے پاکیزہ گوشوں کو غبار آلود بتایا جائے اور ہر ایسی بات کو ان سے منسوب کیا جائے جو ان کے مقام ومرتبہ کو متاثر کرتی ہواور انسانی سینوں سے ان کی محبت وعظمت اور عقیدت کم کرسکتی ہو،چنانچہ انہوں نے ایسے ایسے اتہامات وافتراء ات باندھے کہ جس کا کوئی تصور سخت سے سخت ترین دشمن بھی نہیں کرسکتا ،لیکن دشمنان اسلام نے اس ناروا طریقہ کو اختیار کیا اور اختیار کررہے ہیں ،چنانچہ صدر اسلام سے لیکر ڈنمارک میں بنائے گئے کارٹونس تک کی جانے والی تمام تر کوششیں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں ،لیکن خالق کائنات جو قادر مطلق ہے اس نے اپنے کلامِ بلاغت نظام میں اعلان فرمادیا کہ دشمنانِ اسلام کسی طرح اسلام کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھادینا چاہتے ہیں لیکن ان کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہوتا ہو یقینا شانِ خدا وندی اس نو ر کی محافظ اور کمال تک پہونچانے کی ضامن ہے ۔
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا
چوں کہ دینِ اسلام آخری دین ہے اور پیغمبر اسلام محمد رسول اللہا آخری نبی ہیں ،اس لئے اب قیامت تک آپ اہی کی نبوت جاری وساری رہنے والی اور آپ ا کالایا ہو ا دین ہی باقی رہنے والا ہے ،علماء چوں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث بنائے گئے ہیں اس لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ ہر دور میں آپ اکے افراد امت ہی میں سے ایسے صاحبِ فضل وکمال،حاملِ احادیث وقرآن،پیکرِ علم وعرفان بندگان کو منتخب فرماتے ہیں جو پیغمبرِ اسلام نبی آخر الزماںسیدنا محمد رسول اللہ اکی عظمتوں کو انسانی سینوں میں باقی ومحفوظ رکھنے کی مساعی میں مصروف عمل رہتے ہیں ، اور اس عظیم مقصد کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں ،اس مقصد عظیم کیلئے اپنی مبارک زندگی کے لمحات کو لگانے والے خوش قسمت افراد امت میں حضرت شیخ الاسلام ابوالبرکات محمدانوار اللہ فاروقی نور اللہ مرقدہ کا نام نامی اسم گرامی سر فہرست آتا ہے ، آپ رحمہ اللہ نے نبی آخر الزماں سرور انس وجاں سیدنا محمد رسو ل اکے فضائل وکمالات ،آپ اکی عظمت وتقدیس، آپ اکے احترام وتعظیم سے متعلق کتاب وسنت وآثار صحابہ سے مزین و مدلل تحریرات منصّۂ شہود پر لائیں جس کی سطر سطرسے آپ اکے اوصاف حمیدہ وخصائل فریدہ، آپ اکی عظمت وتقدیس، آپ اکی الفت ومحبت کے انوار جھلکتے ہیں ،آپ ا کی ذات پاک سے محبت اور آپ اکی عظمت وتکریم ،اور آپ اکی توقیرایمان کی نورانیت کیلئے ضروری ہونے کے بیان پرہی آپ رحمہ اللہ نے اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ آپ اکی ذات اقدس سے منسوب ہر ہر شیٔ کے احترام وتقدیس کی طرف امت مسلمہ کو دعوت دی ،اور ان کے جزء ایمان ہونے کو دلائل وبراہین سے ثابت کیا ،اور آپ اکی ذات اقدس کے ساتھ ایمانی وروحانی تعلق کے ایسے ایسے گوشے کھولے کہ جس سے انسانی سینے آپ اکی محبت سے معمور ہوجاتے ہیں اور آپ اکے عظمتوں کے چراغ دلوں کو روشن ومنور کردیتے ہیں ،آپ کی تحریرات کی خوبی یہ ہے کہ وہ پڑھنے والے کے دل میں آپ اسے ایسی محبت وعقیدت اور ایسی نسبت وتعلق قائم کردیتی ہیں کہ جس سے اسلاف کی مبارک زندگیوں کی یا د تازہ ہوجاتی ہے ، محبت حقیقی کی وہ چنگاری جو بے علمی وبے عملی کی راکھ کے نیچے دبی رہنے سے بجھنے کے قریب ہوچکی ہوتی ہے ،پھر سے وہ تیز تر ہوکر دلوں کو حب رسول اسے روشن کردیتی ہیں،آپ اکی امت پر بے پناہ رحمت وشفقت، نصح وخیر خواہی ،امت کیلئے آپ اکا درد وغم سے بے چین رہنا ،آپ اکے اخلاق عالیہ سے انسانی دلوں کو فتح کرلینے کے وہ تذکرے آپ کی تحریرات میں ملتے ہیںجو دلوں میں محبت کا سوز وگذاز پیدا کردیتے ہیں، اس طرح محبت کے مخفی سوتے پھر سے ابلنے لگتے ہیں،عظمت واحترام ،محبت وتعلق ،اتباع وپیروی کی طرف خود بخود قدم اٹھنے لگتے ہیں،المختصر آپ کی تحریرات اپنے اندر ایک انقلاب آفرین پیغام رکھتی ہیں۔
التحیات میں سلام عرض کرنے کا راز
حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ کی ایک تحریر کا اقتباس بطور مثال یہاں نقل کیا جارہا ہے کہ نماز کے قعدہ میں التحیات پڑھتے ہوئے  السلام علیک ایہا النبی کے مبارک کلمات جب ایک مصلی کی زبان پر ہوتے ہیں تو اس موقع پر حضرت نبی پاک اکے مقام ومرتبہ اور آپ اکی عظمت کاکیسا پرتو ایک مصلی کے دل پر ہونا چاہئے ، اس کو بہت ہی بلیغ الفاظ میں سمویا ہے ۔
’’کوئی فقیہ یا محدث نہیں جو التحیات فرض یا نفل نماز میں پڑھنے کو ضروری نہ سمجھتا ہو دیکھئے اس میں جملہ ندائیہ یعنی ایہا النبی موجو دہے یہ ندا اس غرض سے ہے کہ آنحضرت اہمیشہ مشاہدۂ جمال الہی میں مستغرق رہتے ہیں ،اس موقع میں کس کی مجال تھی کہ اپنی طرف توجہ دلا سکے ،مگر کمالِ بندہ نوازی سے یہ اجازت ہوگئی کہ جب چاہو ہمیں پکارلو تو ہم متوجہ ہوجائیں گے ،خصوصاً اس وقت کہ بارگاہِ الوہیت میں تمہیں حضوری نصیب ہو متوجہ کرکے ضرور سلام عرض کیا کرو یہ ہے سر (راز) التحیات میں سلام عرض کرنے کا ‘‘۔ 
اور آگے لکھتے ہیں کہ
’’ التحیات میں جو ندا کے ساتھ آنحضرت اپرسلام عرض کیا جاتا ہے اس سے یہ غرض معلوم ہوتی ہے کہ گویا ہم یہ عرض کررہے ہیں کہ حسب الارشاد ہم بارگاہ الوہیت میں حاضر ہوگئے ہیں مگر نہ ہم میں صلاحیت حضو ری ہے نہ ہماری عبادت شایان بارگاہ کبریائی ہے،آپ اکی مدد درکار ہے کہ یہ عبادت اور عرض ومعروض درجہ اجابت تک پہونچ جائے ‘‘(۱)۔ 
آداب توحید و تعظیم رسول ﷺ
آیت پاک  انا ارسلنک شاہدا ومبشراونذیرا لتومنوا باللّٰہ ورسولہ وتعزروہ وتوقروہ وتسبّحوہ بکرۃ وأصیلا انّ الّذین یبایعونک انّما یبایعون اللّٰہ ید اللّٰہ فوق أیدیھم  کے ضمن میں جو بحث حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ نے فرمائی ہے وہ بڑی منفرد ہے اور بڑی ہی دقیقہ سنجی سے تفسیری وضاحت کی ہے ،جس میں آداب توحید اور عبد ورب کے درمیان فرق کو بڑی احتیاط کے ساتھ پیش فرمایا ہے ،اور آیت پاک کہ ہر ہر حصہ سے آپ اکی عظمت وتوقیر ثابت کی ہے ۔فرماتے ہیں۔
’’اس آیت شریفہ میں آنحضرت ا کی طرف خطاب کرکے فرمایا کہ ہم نے آپ کو شاہد بناکر بھیجا ۔یعنی اپنی امت پر اور جمیع انبیاء کے کاموں پر گواہی دینے والے۔ اور فرمایا کہ آپ اہل ایمان کو خوش خبری دینے والے اور بے ایمانوں کو ڈرانے والے ہیں ،یہاں تک تو حضرت کی طرف خطاب تھا اس کے بعد مسلمانوں کی طرف خطاب کرکے فرمایا کہ ہم نے ان کو اس واسطے بھیجا ہے کہ تم خدا اور رسول پر ایمان لائو، اور ان کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام ان کی پاکی بیان کرتے رہو، اے رسول اللہ جو لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ آپ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے صرف اللہ سے بیعت کرتے ہیں ،آپ کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے ،انتہی۔ لیجئے یہاں تو کچھ اور ہی معاملہ ہورہا ہے کہ غیرت اٹھادی جارہی ہے اور من تو شدم تو من شدی کا مضمون ارشاد ہورہا ہے ،جہاں اس قسم کی خصوصیت بیان کی اسی موقع میں مسلمانوں کو ارشاد ہورہا ہے کہ ان کی تعظیم وتوقیر کرو ،اب اگر کہا جائے کہ یہ تعظیم آنحضرت ا کی ہے تو بھی صحیح ہے ، اور اگر کہا جائے کہ خاص حق تعالی کی وہ تعظیم وتوقیر ہے تو بھی صحیح ہے ، جس طرح بیعت میں کہا جاسکتا ہے ۔اس کے بعد اگر کوئی آنحضرت ا کی توہین اور کسر شان کر ے تو وہ بھی خدا کی توہین ہوگی ، چنانچہ یہی بات صاف طور پر حدیث شریف میں وارد ہے ۔من سبنی فقد سب اللہ۔ یعنی جس نے مجھے گالی دی اس نے خدا کو گالی دی ۔گالی وہی نہیں ہوتی جو عرف میں مشہور ہے، بلکہ مقصود گالی سے فقط کسرشان مقصود ہوتا ہے ، اس وجہ سے جس بات میں آنحضرت اکی کسر شان بیان کی جائے وہی گالی ہوگی ۔درمنثور میں تعزروہ وتوقروہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت شریفہ کا مطلب یہ بیان کیا کہ امر اللہ بتسویدہ وتفخیمہ وتشریفہ وتعظیمہ   یعنی خدائے تعالی نے حکم فرمایاکہ حضرت کی سیادت تسلیم کرو اور ان کی تعظیم کرو اور ہر قسم کا شرف آپ کیلئے مسلم رکھو اور نہایت بزرگ سمجھو ۔ ‘‘(۲)۔
تنزیہ الوہیت و تنزیہ رسالت
’’آیۂ موصوفہ میں تعزروہ وتوقروہ کے ساتھ تسبحوہ بھی ہے ۔اس میں شبہ نہیں کہ تسبیح وتنزیہ خاص خدائے تعالی سے متعلق ہے ، اسی وجہ سے مفسرین لکھتے ہیں کہ توقروہ پر وقف کرنا ضروری ہے۔تاکہ تسبحوہ سے دوسرا مضمون شروع ہوجائے کہ خدائے تعالی کی تنزیہ بیان کرو۔ اگر وقف نہ کیاجائے تو یہ اشتباہ ہوگا کہ جس طرح حضرت  ﷺ کی تعظیم وتوقیر کا حکم ہے تنزیہ کا بھی حکم ہے۔ حالانکہ تنزیہ خاص خدائے تعالی کیلئے سزاوارہے ۔مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ خدائے تعالی نے توقروہ کے ساتھ تسبحوہ فرمایا اور اس میں وقف کرنے کا نہ صراحۃً حکم ہے نہ اشارۃً تو نزول آیت کے وقت یہی سمجھا گیاہوگا کہ جس کی تعظیم وتوقیر کا حکم ہے اسی کی تسبیح کا یہی حکم ہے ورنہ انتشار ضمائر لازم آئیگا،جو کلام بلیغ کے شایاںنہیں، اور اگر یہ خیال کیا جائے کہ تعزروہ کی ضمیر بھی اللہ تعالی ہی کے طرف راجع ہے جس کا مطلب یہ ہوگا ۔خدائے تعالی کی تعظیم وتوقیر اور تسبیح کرو تو بظاہر معنی تو درست ہوجاتے ہیں مگر لسان عر ب کا جو قاعدہ ٹھیراہوا ہے کہ ضمیر قریب کی طرف راجع ہوتی ہے یہ اس کے مخالف ہوگا۔کیونکہ آیت شریفہ میں  لتؤمنواباللہ ورسولہ وتعزروہ وتوقروہ  میں رسولہ ضمیرکے نزدیک ہے ۔اور قطع نظر اس کے سیاق آیت شریفہ حضرت اکے فضائل کیلئے ہے کہ ہم نے آپ کو شاہد اور مبشراور نذیر بناکربھیجاہے ۔اگر اس کے بعدیہ کہا جائے تاکہ تم لوگ اللہ تعالی کی تعظیم وتوقیر کرو تو کس قدر سیاق کے خلاف ہوگا یہ سب تکلف اس وجہ سے کرنے کی ضر ورت ہوتی ہے کہ تسبیح کے معنی حضرت ا کی نسبت صادق نہیں آتے اور اگر تسبیح کے معنی بحسب مناسبت مقام لئے جائیں تو پھر کسی قسم کا اشکال باقی نہیں رہتا ،کیونکہ حق تعالی کی تنزیہ الوہیت سے متعلق ہے یعنی اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو شان الوہیت کے منافی ہو اور رسول اللہ اکی تنزیہ رسالت سے متعلق ہوگی ۔یعنی حضرت میں کوئی بات ایسی نہیں جو شان رسالت کے منافی ہو ،چنانچہ اس قسم کی تنزیہ نبی کریم ا کی خود حق تعالی نے فرمائی ہے ۔ کما قال اللہ تعالی وماہو علی الغیب بضنین ٭ ولو کنت فضا غلیظ القلب لانفضوا من حولک ٭ عزیز علیہ ما عنتم ٭ ما کان محمد ابا احد من رجالکم ۔ وغیر ذلک ۔ یعنی حضرت  ا غیب بتانے میں بخل نہیں کرتے ۔سخت گو اور سخت دل نہیں ہیں وہ تمہارے رنج میں پڑنے کوگوارانہیں کرتے ۔کسی صحابی کے باپ نہیں بلکہ رسول ہیں ۔پھر جس لحاظ سے کہ حضرت ا کے ہاتھ کو اپناہاتھ فرمایا تو اسی لحاظ سے حضرت ا کی تسبیح حق تعالی کی تسبیح ہوجائے تو کیا تعجب ہے۔ بہر حال تسبحوہ کی بھی ضمیر رسولہ کی طرف پھر سکتی ہے‘‘(۳)۔
حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ نے اپنی نگارشات کے ذریعہ پیغام محبت کو عام کیا ہے جس میں اللہ سبحانہ وتعالی کی محبت اور اللہ کے رسول ا کی محبت اور کتاب وسنت کی پیروی میں ساری امت مسلمہ سے محبت کا درس دیا ہے ،سب مانتے ہیں کہ بنیادی محبت اللہ اور اس کے رسول ا کی ہے اور جو محبتیں ان کی تابع ہیں وہ بھی یقینا محمود ہیں ۔ فطری طور پر ماں باپ کو اولاد سے ،اولاد کو ماںباپ سے محبت ہوتی ہے ،بہنوں بھائیوں میں الفت ومحبت کا ہونا ،میاں بیوی کے درمیان رأفت ورحمت ،سامان تسکین وراحت کا پایاجانا ،سب فطری تقاضے ہیں ،دنیا جہاں کی محبتیں نسبتیںاپنی طرف دعوت دیتی ہیں لیکن ایک انسان کی زندگی فقط انہی رشتوں میں بندھے رہنے کیلئے نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی کا مقصد اور اس کی غایت پرواز بہت ہی ارفع واعلی ہے اور وہ اپنے خالق ومالک کی محبت اور اس کے حبیب سیدنا محمد رسول اللہ ا کی محبت او را ن کے لائے ہوئے پاکیزہ دین کی محبت ،یہی دراصل محبت حقیقی کا منبع ہیں ، اور یہی بلند وبالا مقصد حیات ہے ،فطری تقاضے فطری محبتیں اس وقت تک قابل احترام ہیں جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ا کی محبت وتعلق میں اور دین اسلام کے تقاضوں کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہ بنیں اور جب کبھی یہ نوبت آجاتی ہے تو یہی وقت ایک بندہ ٔ مومن کے امتحان کا ہوتا ہے۔ارشاد خداوندی ہے ۔ یاأیھا الذین امنوا لا تتخذوا آبائکم واخوانکم أولیاء ان استحبوا الکفر علی الایمان۔۲؎  ( القرآن الکریم، پارہ :۱۰، سورۃ التوبہ، آیت:۲۳) اے ایمان والو اپنے آباء واجداداوربھائیوں کو دوست مت بنائو ،اگر وہ ایمان کے بالمقابل کفر کو ترجیح دیں ،یعنی ان کے راہ راست پر آنے کی کوئی توقع باقی نہ رہے تو پھر ان سے دلی الفت ومحبت مت رکھو ۔
حالانکہ اسلام والدین بھائیوں بہنوں اور رشتہ داروں سے رشتہ وتعلق کو استوار رکھنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب وتلقین کرتا ہے، لیکن یہ نسبت وتعلق ،دلی الفت ومحبت ،بنیادی وحقیقی محبت کے تابع ہے ،اگر وہ متأثر ہورہی ہو تو پھر یہ رشتے نظر انداز کرنے کے قابل ہیں ۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر محبت حقیقی یعنی اللہ اور اس کے رسول اکی محبت کے تقاضے مجروح ہورہے ہوں تو پھر فطری محبتوں کو قربان کرکے حقیقی محبت کو سینے سے لگالینا ہی عین ایمان ہے ۔ یہی کچھ پیغام حضرت شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ فاروقی قدس سرہ العزیز نے امت مسلمہ کو دیا ہے اور اس حقیقت کو بھی واضح فرمایا ہے کہ اتباع وپیروی حقیقی محبت کے آثار وثمرات ہیں،گویامحبت دعوی ہے ،اتباع وپیروی اس کی دلیل ہے اس کے بغیر محبت کا دعوی جھوٹا سمجھا جائے گا،اس طرح اسلامی احکام پر عمل کرنے اور اسوۂ حسنہ کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرنے کی طرف دعوت دیکر عمل کی طرف ابھارا ہے۔فرماتے ہیں۔
محبت دعویٰ پیروی دلیل
’’ غور کیجئے کہ ایسی حالت میں جب رحمۃ للعالمین ابارگاہ الہی میں پیش ہو کر اپنی امت میں سے خصوصا ان لوگوں کی شفاعت فرمادیں گے جن کو آپ کے ساتھ محبت ہے اور باجازت کبریائی ان تمام آفتوں سے نجات دلا کے جنت میں داخل فرمادیں گے تو اب بتائیے کہ وہ جان جو معرض تلف میں ہے جس کا نکل جانا بہتر سمجھاجاویگا وہ زیادہ تر محبوب ہونی چاہئے یا وہ حضرت جو اس جان کو ابدالآباد کے بے انتہاء مصائب سے بچا کر ابدالآباد کے تلذذات میں پہونچانے والے ہیں مگر یاد رہے کہ جان سے زیادہ محبت اسی وقت ہوگی کہ ایمان امور مذکورہ بالا سے کامل طور پر ہو ، مقصود آنحضرت ا کا اس حدیث شریف سے یہ تھا کہ کمال ایمان کی شناخت بتلادیں کہ اگر جان سے زیادہ محبت ہو تو سمجھ جائیں کہ ایمان کامل ہے ورنہ اس کی تکمیل کی فکر کریں اس پر بھی اگر کوئی حضرت سے محبت نہ رکھے تو حضرت کا اس سے کوئی نقصان نہیں اس نے اپنا ہی نقصان کیا ۔اور دوسری وجہ ضرورت محبت کی یہ ہے کہ وہ آدمی کی فطرت میں داخل ہے کہ جس سے زیادہ محبت رکھتا ہے اس کی بات مانتا ہے اور جس کام کے کرنے یا نہ کرنے کو وہ کہتا ہے اس کی اطاعت کرتا ہے چنانچہ بزرگوں نے لکھا ہے ۔ان المحب لمن یحب یطیع اسی وجہ سے ہر شخص کو اپنے سچے دوستوں پر وثوق اور اس بات کا افتخار ہوتا ہے کہ ہم اپنے دوستوں سے جو کچھ کہیں گے کیسا ہی وہ مشکل کام ہو اس کو وہ انجام دیں گے اور وجدانی طور پر دوست کی محبت کا اندازہ کرسکتا ہے کہ اپنے احباب میں کون سچے دل قابل وثوق دوست ہیں اور کون ریائی اور غرضی ۔غرض کہ جس کے ساتھ کامل محبت ہوتی ہے اس کی مخالفت کسی امر میں ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ مخالفت دشمنی کا لازمہ ہے ۔ انتہائی درجہ کی محبت کسی سے ہو تو اس کے کہے پر جان بھی دینا آسان ہوجاتا ہے ۔یہ تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس کو اپنی بی بی کے ساتھ زیادہ محبت ہوتی ہے تو اس کے حکم کے مقابل میں اپنے ماں باپ کے حکم کی کچھ پروا ہ نہیں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہوجاتا ہے حالانکہ ان کے حقوق اور احسانات ایسے نہیں کہ ان کا انکار کر سکے مگر اس محبوبہ کی محبت کا یہ اثر ہے کہ وہ حقوق میں کان لم یکن ہیں ہر چند تقاضائے فطرت انسانی یہ تھا کہ والدین سے دشمنی یا مخالفت نہ ہوسکے مگر محبوبہ کی محبت نے اس کو آسان کردیا۔ اب غور کیجئے کہ مومن کو کسی کے ساتھ اگر اتنی محبت ہو کہ اس کے حکم کے مقابلہ میں اپنے نبی ا کے حکم کو نہ مانے تو کیونکر کہا جائے کہ اس کا ایمان کامل ہے اسی طرح اگر نفس کوئی حکم کرے اور نبی ا کا حکم اس کے خلاف میں ہو تو مؤمن کا فرض منصبی کیا ہونا چاہئے آیا نفس کا حکم مانے یا نبی ا کا ۔یہ تو کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا کہ نبی ا کا حکم نہ مانئے گا مگر جب اپنے نفس کی محبت نبی اکی محبت سے زیادہ ہوگی تو اکثر نفس ہی کی بات چل جائیگی جس سے نبی ا کی مخالفت اکثر ہو ا کرے گی اس لئے حضرت ا نے فرمایا کہ ہر مومن کو ضرور ہے کہ اپنے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے بلکہ اپنے نفس سے بھی زیادہ محبت میرے ساتھ رکھے تاکہ حضرت کے حکم کے مقابلہ میں کسی کا حکم نہ چلے ۔ کیونکہ یہ لوگ جس کام کا حکم کریں گے اس میں ان کو اپنا نفع ذاتی پیش نظر ہوگا اس طرح نفس بھی انہیں کاموں کی خواہش کرے گا جن میں صرف دنیوی تلذذات ہوں بخلاف آنحضرت ا کے کہ آپ کو امر ونہی سے کوئی اپنا ذاتی نفع متصور نہیں بلکہ جن کاموں کے کرنے کا آپ ا نے حکم فرمایا ہے ان سے صرف ہماری بڑی بڑی منفعتیں دونوں جہاں کی متعلق اور وابستہ ہیں اور جن کاموں سے منع فرمایا دونوں جہاں میں وہ ہمارے مضر اور مہلک ہیں اس امر ونہی سے حضرت ا کی غرض یہی ہے کہ ہمیں ان کے بجالانے سے ابدالآباد کی سعادت اور راحت نصیب ہو اور دارین میں کامیاب رہیں حق تعالی فرماتا ہے۔ لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمؤ منین رؤف رحیم ۔یعنی آئے ہیں تم میں رسول ا تم میں کے شاق اور بھاری ہے ان پر کہ تم ایذا میں پڑو تمہاری بھلائی پر وہ حریص ہیں ایمان والوں پر شفقت اور مہربانی رکھتے ہیں ۔انتہی۔ حاصل یہ کہ جب کوئی ایسا کام پیش ہو کہ اس میں اپنے نفس یا اور کسی محبوب کی خواہش ہو اور اس کام میں نبی ا کی خواہش اس کے خلاف ہو تو مومن کو چاہئے کہ نبی ا کی خواہش کو پورا کرے اور ان کی خواہش پر خاک ڈالے جو خود غرضی سے اپنے دوست کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔اور یہ یعنی نبی ا کی پوری اطاعت اس وقت تک ممکن نہیں کہ ان سب سے زیادہ محبت آپ ا کے ساتھ ہو اور جب تک امور مذکورہ پر کامل ایمان نہ رہے اس قسم کی محبت حضرت سے ہو نہیں سکتی اس سے ظاہر ہے کہ حضرت کی محبت کے ساتھ ایمان کو ایک تعلق خاص ہے غرض حضرت نے جو خواہش فرمائی کہ تمام عالم سے زیادہ محبت آپ کے ساتھ ہو اس میں بھی صرف ہماری بھلائی پیش نظر ہے اب ہمیںضرورہے کہ اگر اس قسم کی محبت اپنے میں پائیں تو شکر الہی بجالائیں ورنہ دعا کریں کہ الہی ہمیں آنحضرت ا کی ایسی محبت عطا فرما کہ آپ کی اطاعت ہم پر آسان ہوجائے اور اس کے مقابلہ میں ہم سے نہ اپنے نفس کی اطاعت ہوسکے نہ اور کسی محبوب کی اب آنحضرت ا کی اطاعت کا حال سنئے حق تعالیٰ فرماتا ہے ۔قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتّبعونی یحببکم اللّٰہ ۔یعنی کہدو اے محمد ا اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری اتباع کرو جس سے تم اللہ کے محبوب ہوجائو گے ،سبحان اللہ حضرت کی اطاعت کیسی باوقعت چیز ہے کہ محبوب الٰہی بنادیتی ہے۔دیکھئے یہاں بھی وہی بات ہے جو اوپر مذکور ہوئی کہ جس کے ساتھ آدمی محبت رکھتا ہے اس کی اطاعت کرنا ہے اسی وجہ سے حق تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو دعوئے محبت رکھتے تھے گویا یہ فرمایا کہ اگر تمہیں میری محبت ہے تو ضرور ہے کہ اس کے آثار نمایاں ہوں گے یعنی ہماری اطاعت کرو گے اور ہماری اطاعت یہی ہے کہ رسول ا کی اطاعت کرو جیسا کہ حق تعالی فرماتا ہے ۔ومن یطع الرّسول فقد اطاع اللّٰہ۔ یعنی جس نے رسول ا کی اطاعت کی اس نے یقینا اللہ کی اطاعت کی ۔یہاں ایک اور بات معلوم ہوئی کہ حق تعالی کو منظور ہے کہ آنحضرت ا کے ساتھ بھی مسلمانوں کو کامل محبت ہو کیونکہ ابھی معلوم ہوا کہ پوری اطاعت اس وقت تک نہیں ہو سکتی کہ کامل طور پر محبت نہواور حق تعالی نے اپنی اطاعت کو آنحضرت ا کی اطاعت پر منحصر فرمادیااس سے ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ نے ان آیات میں ان لوگوں کو جو محبت الہی کا دعوی کرتے ہیں اشارۃً یہ حکم فرمایا کہ جس طرح ہمارے ساتھ محبت رکھتے ہو ہمارے نبی ا کے ساتھ بھی پوری محبت رکھو جس کے آثار نمایاں ہوں یعنی ان کی پوری اطاعت کرو اور اگر اطاعت نہ کی تو ہماری محبت کے دعوے میں چھوٹے سمجھے جائیں گے۔
غرض کہ آنحضرت ا کی محبت دین میں ضروری سمجھی گئی ہے اسی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو آپ سے کمال درجہ کی محبت تھی جیسا کہ شفا میں قاضی عیاض رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔کہ کسی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا کہ صحابہ کی محبت آنحضرت ا کے ساتھ کیسی تھی فرمایا ٹھنڈے پانی کے ساتھ جو کمال تشنگی کے وقت محبت ہوتی ہے اس سے بھی زیادہ تر تھی ۔  مواہب لدنیہ میں روایت ہے کہ ایک روز ایک انصاری نے آنحضرت اکی خدمت میں آکر عرض کیا یا رسول اللہ ا  خدا کی قسم آپ کی محبت میرے دل میں اپنی جان ومال ،اہل واولاد سے زیادہ ہے اگر میں حاضر خدمت ہو کر دیدار سے مشرف نہ ہوں تو یقین ہے کہ مرجائوں گا ۔ یہ کہہ کر رونے لگے حضرت نے رونے کی وجہ دریافت کی عرض کیا مجھے خیال آیا جب آپ انتقال فرمائیں گے اور میں بھی مرجائوں گا تو آپ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مقامات عالیہ میں تشریف فرما ہوں گے اور ہم اگر جنت میں گئے بھی تو نیچے کے درجہ میں رہیں گے پھر آپ کا دیدار کیوں کر نصیب ہوگا یہ سن کر حضرت خاموش ہوگئے اس وقت یہ آیت شریفہ نازل ہوئی ۔ ومن یطع اللّٰہ والرّسول فاولئلک مع الّذین انعم اللّٰہ علیہم من النّبیین والصّدیقین والشّھداء والصّالحین وحسن اولئک رفیقا۔یعنی جو لوگ خدا اور رسول ا کی اطاعت کرتے ہیں وہ انبیاء و صدیقین اور شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے ‘‘(۴)۔ 
کمالِ محبت کمالِ ایمان
 ’’اہل اسلام میں وہی لوگ بڑے درجہ کے سمجھے جاتے ہیںجن کو نبی کریم ا کے ساتھ کمال درجہ کی محبت ہوتی ہے اور کمال درجہ کے ایمان کا مدار بھی اسی پر رکھا گیا ہے جیسا کہ صحیح حدیث شریف میں وارد ہے کہ لا یؤ من احدکم حتی اکون احب الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمین یعنی کوئی ایمان نہیں لا تا جب تک اس کے دل میں میری محبت اولاد اور باپ اور تمام لوگوں کی محبت سے زیادہ نہیں ہوتی اس پر قرینہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ حالت تھی کہ آنحضرت ا کے خلاف میں کوئی شخص کیساہی دوست ہو اگر کچھ کہتا ہوتو ہرگز نہ مانتے اور حضرت ہی کی اطاعت کرتے اس کی وجہ یہی تھی کہ محب اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے جیسا کہ مشہور ہے ان المحب لمن یحب یطیع ۔ اس حدیث سے جو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان سے پہلے صحابہ کو آنحضرت ا سے محبت ہوجاتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ جو کفار منصف مزاج تھے وہ آنحضرت ا کے اخلاق عادات اور حرکات وسکنات پر غور کیا کرتے تھے پھر جب ان تمام امور میں غیر معمولی کمال کا مشاہدہ کرتے تو بالطبع آپ سے ان کو محبت ہوجاتی تھی کیونکہ طبیعت انسانی کمال پسند واقع ہوئی ہے دیکھ لیجئے کہ کسی کمال کا شخص کسی شہر میں آجاتا ہے تو لوگ اس کے گرویدہ ہوجاتے اور ان کو اس سے محبت پیدا ہوتی ہے ۔کسی بزرگ کا قول ہے ۔ ع  کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی۔جب ایک کمال باعث محبت ہوجائے تو آنحضرت ا کی ذات ستودہ صفات تو مجمع کمالات صوری ومعنوی تھی سوائے متعصب کے ایسا کون ہوگا جس کو آپ کے ساتھ ذاتی محبت نہ ہوتی ہوگی ۔ حضرت کے کمالات تو بے انتہا ہیں‘‘ (۵)۔
حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ العزیز نے اس کے بعد حضور پاک ا کے بے پناہ کمالات کا ذکر احادیث وآثار کی روشنی میں فرمانے کے بعد یہ لکھا ہے۔ 
محبت جان سے بھی زیادہ
’’الحاصل جملہ اخلاق حمیدہ وصفات پسندیدہ آنحضرت ا میں کامل طور پر پائے جاتے تھے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ وہ صفات ہیں کہ جن میں سے کسی میں ایک بھی پائی جائے تو اس کے ساتھ عموما محبت ہوا کرتی ہے پھر جب یہ تمام صفات علی وجہ الکمال حضرت میں موجود تھے جن کو سب لوگ مشاہدہ کرتے تھے تو ایساکون ہوگا جس کو بالطبع آپ کے ساتھ محبت نہ پیدا ہوتی ہوگی ۔ہاں یہ بات اور ہے کہ عار اور تعصب وغیرہ کی وجہ سے یہ امور نظر انداز کردئے جاتے تھے ،مگر اس قسم کے لوگ ایمان بھی لاتے نہ تھے ،ان کا ذکر ہی کیا، کلام ان لوگوں میں ہے جو تعصب کو دور کرکے نظر انصاف سے ان کمالات کو دیکھا کرتے تھے ان کو بمقتضائے طبع حضرت سے کمال درجہ کی محبت ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں ہو سکتا کیونکہ حسن واحسان اور کمالات پر نظر پڑنے کے بعد آدمی کے دل میں خود بخود محبت پیدا ہونا جبلی اور فطرتی امر ہے ۔ بہر حال یہ کہنا بالکل قرین قیاس ہے کہ ان کمالات کو دیکھ کر اہل انصاف کو بالطبع محبت پیدا ہوتی تھی جس کی خبر آنحضرت ا نے دی کہ  لا یؤمن احدکم حتی أکون احب الیہ الخ  یہاں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ا سوائے اپنی جان کے میں آپ کو سب سے زیادہ دوست رکھتا ہوں اس پر ارشاد ہوا ۔لن یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ۔ یعنی کوئی ایمان نہ لائیگا جب تک میری محبت اس کے دل میں اس کی جان سے زیادہ نہ ہوگی ۔عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ا آپ کی محبت میرے دل میں میری جان سے بھی زیادہ ہے فرمایا ۔الآن یا عمر۔  حاصل یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اپنی جان آدمی کو بہت عزیز ہوتی ہے یہ عرض کردی کہ میں اپنی جان کو سب سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں اس پر جب یہ ارشاد ہوا کہ جب تک کوئی اپنی جان سے بھی زیادہ مجھ کو عزیز اور محبوب نہ رکھے گا ایمان نہ لائیگا تو عمر رضی اللہ عنہ اصل مطلب کو سمجھ گئے کہ فی الواقع ایمان لانے سے پہلے یہی کیفیت ہوا کرتی ہے اس وجہ سے ہر مسلمان حضرت کے حکم پر اپنی جان دینے کو مستعد ہوجاتا ہے یہ اطاعت خبردیتی ہے کہ مسلمان کو اپنی جان سے بھی زیادہ حضرت کی محبت ہوتی ہے کیونکہ اطاعت محبت پر دلیل ہے اس وقت عرض کی یا رسول اللہ یہ محبت تو مجھے بھی حاصل ہے اور قسم کھاکر صاف کہہ دیا کہ آپ کی محبت جان سے بھی زیادہ ہے۔ کما قال  والذی انزل علیک الکتاب لانت احب الی من نفسی التی بین جنبی۔ اس کے جواب میں حضرت ا نے فرمایا الآن یا عمر یعنی اب تم نے سمجھ کر کہا کیونکہ اس وقت قسم کھا کر اپنے دعوے کو مدلل کیا اور پہلے جو عرض کی تھی وہ سرسری طور پر تھا جیسا کہ ان کے اس قول سے ظاہر ہے لانت احب الی من کل شی الا نفسی‘‘(۶)۔ 
اللہ کے پیارے رسول سیدنا محمد رسول اللہ ا کا ارشاد پاک ہے ۔ لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ۔ تم میں سے کوئی شخص مؤمن (کامل) نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اپنی اولاد ،والدین ودیگر تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں ۔ دوسری حدیث پاک میں ارشاد ہے ۔ لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ طبعاًلما جئت بہ ۔ کوئی شخص تم میں سے اس وقت تک مومن ( کامل ) نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اس کی خواہش نفس میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائے۔ مذکورہ بالا دونو ں احادیث کی ایمان افروز تشریح وتوضیح حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ کے صدر بالا اقتباسات میں پوری طرح آچکی ہے۔حضرت شیخ الاسلام انوار اللہ فاروقی قدس سرہ العزیز محبت رسول ا کے ایک عملی پیکر رہے ہیں وہ صرف گفتار کے غازی نہیں تھے بلکہ اسلامی کردار کی ایک جیتی جاگتی عملی تصویر تھے ۔ حضرت شیخ الاسلام کا پاک سینہ نہ صرف حب نبوی ا سے معمور تھا بلکہ عملی زندگی اسی حب رسول ا کی آئینہ دار تھی ،اسی محبت نے انہیں اپنا سب کچھ چھوڑ کر دیار ہند سے کشاں کشاں دیار حبیب کی طرف چلنے پر آمادہ کرلیا۔
دیارِ حبیب اور حضرت شیخ الاسلامؒ
دیار حبیب ، شہر مدینہ !  وہ جوشہر محبت، شہر تمنا ،آنکھوں کی تھنڈک ،مرکز آرزو،شہر پاک در افشاں ،دیار سید ذیشاں، عکس گلشن ریحاں، قرار جاں،سکون قلب وجناں ، دردمند دلوں کے درد کادرماں ،غمزدوں کی تسکین کا ساماں ،بے سہاروں کا سہارا ،محتاجوں اور مسکینوں کی پناہ گاہ ،رحمت للعالمین اکی آرامگاہ یقینا جو رحمتو ں کا مسکن ،علوم ومعرفت کا مخزن ہے ، اس لئے اس کی فضائوں میں کچھ اوقات کا گزارلینا اور کچھ لمحات کیلئے وہاں سانس لے لینا یقینا راحت ورحمت کا موجب ہے ،دل ونگاہ کو جس سے بڑی تھنڈک میسر آجاتی ہے یہی کچھ ایمانی و روحانی جذبات واحساسات کے ساتھ حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ حضور انور سرور کونین، روح کائنات ، قرار جاں ، جان ایماں، اکے قدوم پاک میں رہ کر اپنی زندگی کے لمحات بتانے اور آپ ا کے مبارک قدوم پاک میں جان جان آفریں کے سپرد کرکے اسی بابرکت سرزمین میں آسودۂ خاک ہونے کی تمنا لئے ہوئے پہنچے تھے ۔ لیکن چونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کو آپ سے دین اسلام کی بڑی خدمت لینا تھا ، دیار ہند کو دیا ر حبیب اکی نورانی ضیائوں سے ضیاء بار کرنا تھا ،اس لئے اشارۂ غیبی وہدایت منامی نے آپ کودکن کی طرف مراجعت اختیار کرنے پر مجبور کردیا ۔ حضرت پیر طریقت ،رہبر کامل ، مرشد حق ، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی رہبری ورہنمائی میںدیار مدینہ کونمناک آنکھو ںکے ساتھ رخصت کرکے ہند کی طرف رخت سفر باندھا۔ مدینہ منور ہ کی پرنور فضائوں نے علم وعرفان کے جن انوار ضیاء بار وفیوضات گہر بار سے سینہ انوار اللہ(رحمہ اللہ) کو منور کردیا تھا اور گنبد خضری علی صاحبہا افضل التحیۃ والثناء پر نازل ہونے والی بارش رحمت کے جن قطرات کو سمو کرانہوں نے اپنے سینہ صافی کو ایمان ومعرفت کے جواہر پاروں کا صدف بنالیا تھا ۔ قدرت کو یہی منظور ہوا کہ یہ بے کرا ں،انوار علم وعرفاں ،حقائق احادیث وقرآن ان کی ذات تک محدود نہ رہیں بلکہ اس کی پر نور ضیائیں دوسروں کے سینوں کو منور کریںاور ان انوار کی راحت ورحمت اور تھنڈک دوسرے دلوں کی تھنڈک کا سامان بنے ۔ 
اسی مقصد عظیم کی تکمیل کیلئے حق سبحانہ نے آپ کیلئے دکن میں مواقع فراہم فرمائے ، مدینہ منورہ سے احادیث کا مبارک خزانہ کنزالعمال جو اپنے ساتھ لائے تھے ،دائرۃ المعارف النظامیہ ثم العثمانیہ کا قیام عمل میں لاکر اس کی اشاعت کا سامان فرمایا،جو علم وحکمت کا خزینہ بحر معرفت کا گنجینہ ہے ۔دوسری طرف دانشگاہ علم وعرفاں جامعہ نظامیہ کی تأسیس رکھی ،جس سے علم وعمل کے عملی پیکر پیدا ہوتے رہے اور علمی وعملی طور پر دین اسلام کی تعلیمات حضور پرنور سید المرسلین ا کی پاکیزہ سنتوں اور آپ ا کے مبارک اسوہ حسنہ کو عام کرنے اور انسانی سینوں کورب کعبہ کی بڑائی ،کبریائی کا امین وانوار مدینہ کی جلوہ گاہ بنانے میں مصروف عمل رہے ،اور اپنے خدا ترس اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج بھی اس کے فرزندان علم اقطاع عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اوراسی مقصد عظیم کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی محبت اور حضرت نبی کریم ا کی محبت واتباع ہی دراصل اس دنیا میں وجہ سکون واطمینان ہے ،جو اس حقیقت سے آشنا نہیں ان کو اس دنیا کی مادی راحتیں وسامان عیش وآرام کوئی سکون نہیں دے سکتے ،اس پاک محبت سے جن کے سینے خالی ہیں ان کی زندگیاں روحانی کیف وسرور سے محروم ہیں ،دنیا کی دل فریبیوں میں کھوئے رہنے والوں کی زندگیاں مادی ترقیات کی بنا سامان راحت وآرام میسر آجانے کے باوجود بے لطف اور مکدر ہیں، اس کی وجہ صرف اور صرف اسلام اور پیغمبر اسلام ا سے دوری ہے ،یہ دوری جتنی زیادہ ہوگی دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمتوں سے محرومی ہوگی ،اخروی رحمتوں سے محرومی کا تو کوئی تصور ہی ممکن نہیں ۔
وجود رحمت افتخار انسانیت
ساری کائینات اپنے وجود میں آپ ا کے وجود کی رہین منت ہے، انسانیت کا افتخار آپ ا کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل کرنے اور آپ ا کی مبارک حیات طیبہ سے روشنی حاصل کرنے ہی سے ممکن ہوسکتا ہے،آپ ا کے نقوش پا کو نشان راہ بنانے سے ہی انسان کا سر تاج شرافت وافتخار کے قابل بن سکتا ہے، ذات رسالت مآب ا سے اگر انسانوں کا رشتہ توڑ دیا جائے تو پھر ان کے حق میں یہ زندگی موت کے مترادف ہوجاتی ہے ،سرمایہ حیات کے سارے سرچشمے ،طاقت وقوت کے سارے ذرائع، دولت وثروت کے سارے ذخیرے ، انسانوں کو روحانی زندگی کا کیف وسرور نہیں دے سکتے ،روحانی زندگی کے تقاضے جب پورے نہ ہوں تو پھر مادی تقاضوں کی تکمیل سے مقصد تخلیق کی تکمیل نہیں ہو سکتی اور انسان کی ایمانی حیثیت متأثر ہوجاتی ہے۔حضرت شیخ الاسلام کی پاکیزہ تحریرات کا یہی وہ خلاصہ ،لب لباب اور عطر ہے جس سے انسان کی مادی زندگی اسودہ اور روحانی زندگی معطر ہوتی ہے ،آپ کی نگارشات کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اسلام گہوارۂ رحمت ہے ،محمد عربی ا کی ذات اقدس اس پیغام رحمت کی امین ہے اور آپ ا ہی کی ذات با فیض ساری انسانیت بلکہ ساری کائنات کیلئے سایۂ رحمت ہے ،دکھی انسانیت کو آپ ہی کے دامن کرم میں پناہ مل سکتی ہے،آپ ا ہی روشنی کا عظیم مینار ہیں ،جس کی روشنی میں ساری انسانیت اپنے لئے صلاح دنیا وفلاح آخرت کا راستہ پاسکتی ہے۔انسانیت کی عظمت اس کی عزت وناموس کی حفاظت آپ ہی کے دامن رحمت میں پناہ لے کر حاصل کی جاسکتی ہے۔حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنی تحریرات سے اسی والہانہ عقیدت ومحبت ، جذبہ احترام ، عظمت وتعظیم کو کتاب وسنت وآثار صحابہ سے مزین کرکے ذوق وشوق اخروی پیداکرنے کی کوشش کی ہے ۔آپ (رحمہ اللہ ) کی پاکیزہ زندگی کے شب وروز ایک کھلی کتاب ہیں جس سے اکتساب فیض کرکے اپنی دنیا وآخرت کو سنوارا جاسکتا ہے،اپنے فکر وعمل ،تحقیق وجستجو ،محنت وکاوش اور مخلصانہ جدوجہد سے علم وعمل اور عرفان حق کی جو راہیں آپ نے ہموار کی ہیں ،اس پر چل کر اور ان کی پاکیزہ تحریروں میں سموئے ہوئے جذبات الفت ومحبت ،عظمت وتوقیر کو اپنے سینے سے لگا کر اور ان پر اپنی پلکیں نچھاور کرکے ایک بندۂ مومن راہ نجات پاسکتا ہے ، اور اپنی زندگی کے اوقات کو جو مہلت عمل کیلئے دئے گئے ہیں اور اپنی آخرت کو سنوارنے کیلئے بخشے گئے ہیں ،اسی مبارک فکر وعمل میں بتاتے ہوئے اللہ کے حضور سرخ روئی وشاد کامی کے ساتھ حاضر ہوسکتا ہے۔
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست 
اگر باو نہ رسیدی تمام بو لہبیست 
حواشی و حوالہ جات
(۱)  مقاصد الاسلام، حصہ یاز دہم، صفحہ۹،۱۰، حضرت شیخ الاسلامؒ
(۲) مقاصد الاسلام، حصہ دہم، صفحہ۹۸،۹۹، حضرت شیخ الاسلامؒ
(۳)  مقاصد الاسلام، حصہ یازدہم، صفحہ۱۲ تا ۱۴، حضرت شیخ الاسلامؒ
(۴) مقاصد الاسلام، جلد دہم، صفحہ۱۳۴،۱۳۵، حضرت شیخ الاسلامؒ
(۵) مقاصد الاسلام، جلد اول، صفحہ۱۱۹ تا ۱۲۳، حضرت شیخ الاسلامؒ
(۶) مقاصدر الاسلام، جلد دہم، صفحہ۱۴۳، حضرت شیخ الاسلامؒ۔ 
٭٭٭
Exit mobile version