لہو و لعب کا بیان

مسئلہ:۔گنجفہ، چوسر، شطرنج، تاش کھیلنا ناجائز ہے حدیثوں میں شطرنج کھیلنے کی بہت زیادہ ممانعت آئی ہے ۔ایک حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جس نے ،،نرد شیر،، کھیلا گویا سور کے گوشت اور خون میں اپنا ہاتھ ڈال دیا ۔
 (سنن ابوداؤد،کتاب الادب،باب فی النھی عن اللعب بالنرد،رقم ۴۹۳۹،ج۴،ص۳۷۱)
     پھر یہ بھی وجہ ہے کہ ان کھیلوں میں آدمی اس قدر محو اور غافل ہو جاتا ہے کہ نماز وغیرہ دین کے بہت سے کاموں میں خلل پڑ جاتا ہے تو جو کام ایسا ہوکہ اس کی وجہ سے دینی کاموں میں خلل پڑتا ہو وہ کیوں نہ برا ہوگا۔
 (الدرالمختار،مع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۵۰۔۶۵۱)
     یہی حال پتنگ اڑانے کا بھی ہے کہ یہی سب خرابیاں اس میں بھی ہیں بلکہ بہت سے لڑکے پتنگ کے پیچھے چھتوں سے گر کر مر گئے اس لئے پتنگ اڑانا بھی منع ہے غرض لہو ولعب کی جتنی قسمیں ہیں سب باطل ہیں صرف تین قسم کے لہو کی حدیث میں اجازت ہے
(۱)بیوی کے ساتھ کھیلنا(۲)گھوڑے کی سواری کرنے میں مقابلہ(۳)تیرندازی کا مقابلہ۔
     (سنن ابوداؤد،کتاب الجہاد،باب فی الرمی،رقم ۲۵۱۳،ج۳،ص۱۹)
مسئلہ:۔ناچنا، تالی بجانا، ستار، ہارمونیم، چنگ، طنبورہ بجانا اسی طرح دوسری قسم کے تمام باجے سب ناجائز ہیں اسی طرح ہارمونیم، ڈھول بجا کر گانا سنانا اور سننا بھی ناجائز ہے۔
        (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۵۱)
مسئلہ:۔عید کے دن اور شادیوں میں دف بجانے کی اجازت ہے جب کہ ان دفوں میں جھانج نہ لگے ہوں اور موسیقی کے قواعد پر نہ بجائے جائیں بلکہ محض ڈھب ڈھب کی بے سری آواز سے فقط نکاح کا اعلان مقصود ہو۔
 (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع عشر فی الغناء۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۲)
مسئلہ:۔رمضان شریف میں سحری کھانے اور افطاری کے وقت بعض شہروں میں نقارے یا گھنٹے بجتے ہیں یا سیٹیاں بجائی جاتی ہیں جن سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ لوگ بیدار ہو کر سحری کھائیں یا انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ ابھی سحری کا وقت باقی ہے اورلوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آفتاب غروب ہوگیا ہے اور افطار کا وقت ہو گیا یہ سب جائز ہیں کیونکہ یہ لہو و لعب کے طور پر نہیں ہیں بلکہ ان سے اعلان کرنا مقصود ہے اسی طرح ملوں اور کارخانوں میں کام شروع ہونے اور کام ختم ہونے کے وقت جو سیٹیاں بجائی جاتی ہیں یہ بھی جائز ہیں کہ ان سے لہو مقصود نہیں بلکہ اطلاع دینے کے لئے یہ سیٹیاں بجائی جاتی ہیں ۔                     (بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۳۰)
مسئلہ:۔کبوتر پالنا اگر اڑانے کے لئے نہ ہو تو جائز ہے اور اگر کبوتروں کو اڑانے کیلئے پالا ہے تو ناجائز ہے کیونکہ کبوتر بازی یہ بھی ایک قسم کا لہو ہے اور اگر کبوتروں کو اڑانے کے لئے چھت پر چڑھتا ہو جس سے لوگوں کی بے پردگی ہوتی ہو تو اس کو سختی کے ساتھ منع کیا جائے گا اور وہ اس پر بھی نہ مانے تو اسلامی حکومت کی طرف سے اس کے کبوتر ذبح کر کے اس کو دے دیئے جائیں گے تاکہ اڑانے کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے ۔                 (بہارشریعت،ح۱۶،ص۱۳۱)
مسئلہ:۔جانوروں کو لڑانا جیسے لوگ مرغ، بٹیر، تیتر، مینڈھوں کو لڑاتے ہیں یہ حرام ہے اور ان کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے ۔                 (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۳۱)
مسئلہ:۔اکھاڑوں میں کشتی لڑنا اگر لہو و لعب کے طور پر نہ ہو بلکہ اس سے مقصود اپنی جسمانی طاقت کو بڑھانا ہو تو یہ جائز ہے مگر شرط یہ ہے کہ ستر پوشی کے ساتھ ہو آج کل لنگوٹ اور جانگیا پہن کر جو کشتی لڑتے ہیں جس میں رانیں وغیرہ کھلی رہتی ہیں یہ ناجائز ہے اور ایسی کشتیوں کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے کیونکہ کسی کے ستر کو دیکھنا حرام ہے ہمارے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے رکانہ پہلوان سے کشتی لڑی اور تین مرتبہ اس کو پچھاڑا کیونکہ رکانہ پہلوان نے کہا تھا کہ اگر آپ مجھے پچھاڑ دیں تو میں مسلمان ہو جاؤں گا چنانچہ رکانہ مسلمان ہوگئے ۔  (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع عشر فی الغناء۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۲)
مسئلہ:۔اگر لوگ اس طرح آپس میں ہنسی مذاق کریں کہ نہ گالی گلوچ ہو نہ کسی کی ایذا رسانی ہو بلکہ محض پر لطف اور دل خوش کرنے والی باتیں ہوں جن سے اہل محفل کو ہنسی آجائے اور تفریح ہو جائے اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسی تفریح اور مزاح رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور صحابہ علیھم الرضوان سے ثابت ہے ۔  (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع عشر فی الغناء۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۵۲)
Exit mobile version