عذاب ٹلنے کی دعا

طبرانی شریف کی روایت ہے کہ شہر نینویٰ پر جب عذاب کے آثار ظاہر ہونے لگے اور حضرت یونس علیہ السلام باجود تلاش و جستجو کے لوگوں کو نہیں ملے تو شہر والے گھبرا کر اپنے ایک عالم کے پاس گئے جو صاحب ِ ایمان اور شیخِ وقت تھے اور ان سے فریاد کرنے لگے تو انہوں نے حکم دیا کہ تم لوگ یہ وظیفہ پڑھ کر دعا مانگو یَاحَیُّ حِیْنَ لاَ حَیَّ و َیَاحَیُّ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَاحَیُّ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ چنانچہ لوگوں نے یہ پڑھ کر دعا مانگی تو عذاب ٹل گیا۔ لیکن مشہور محدث اور صاحب ِ کرامت ولی حضرت فضیل بن عیاض علیہ الرحمۃ کا قول ہے کہ شہر نینویٰ کا عذاب جس دعا کی برکت سے دفع ہوا وہ دعا یہ تھی کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّ ذُنُوْبَنَا قَدْ عَظُمَتْ وَجَلَّتْ وَاَنْتَ اَعْظَمُ وَاَجَلُّ فَافْعَلْ بِنَا مَا اَنْتَ اَھْلُہٗ وَلاَ تَفْعَلْ بِنَا مَانَحْنُ اَھْلُہٗ بہرحال عذاب ٹل جانے کے بعد جب حضرت یونس علیہ السلام شہر کے قریب آئے تو آپ نے شہر میں عذاب کا کوئی اثر نہیں دیکھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ اپنی قوم میں تشریف لے جایئے۔ تو آپ نے فرمایا کہ کس طرح اپنی قوم میں جا سکتا ہوں؟ میں تو ان لوگوں کو عذاب کی خبر دے کر شہر سے نکل گیا تھا، مگر عذاب نہیں آیا۔ تو اب وہ لوگ مجھے جھوٹا سمجھ کر قتل کردیں گے۔ آپ یہ فرما کر اور غصہ میں بھر کر شہر سے پلٹ آئے اور ایک کشتی میں سوار ہو گئے یہ کشتی جب بیچ سمندر میں پہنچی تو کھڑی ہو گئی۔ وہاں کے لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہی کشتی سمندر میں کھڑی ہو جایا کرتی تھی جس کشتی میں کوئی بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ کشتی والوں نے قرعہ نکالا تو حضرت یونس علیہ السلام کے نام کا قرعہ نکلا۔ تو کشتی والوں نے آپ کو سمندر میں پھینک دیا اور کشتی لے کر روانہ ہو گئے اور فوراً ہی ایک مچھلی آپ کو نگل گئی اور مچھلی کے پیٹ میں جہاں بالکل اندھیرا تھا آپ مقید ہو گئے۔ مگر اسی حالت میں آپ نے آیت کریمہ لَآ اِلٰہَ اِلآَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo(پ۱۷،الانبیاء:۸۷) کا وظیفہ پڑھنا شروع کردیا تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس اندھیری کوٹھڑی سے نجات دی اور مچھلی نے کنارے پر آکر آپ کو اُگل دیا۔ اس وقت آپ بہت ہی نحیف و کمزور ہوچکے تھے۔ خدا عزوجل کی شان کہ اُس جگہ کدو کی ایک بیل اُگ گئی اور آپ اُس کے سایہ میں آرام کرتے رہے پھر جب آپ میں کچھ توانائی آگئی تو آپ اپنی قوم میں تشریف لائے اور سب لوگ انتہائی محبت و احترام کے ساتھ پیش آ کر آپ پر ایمان لائے۔
                                 (تفسیر الصاوی،ج۳،ص۸۹۳،پ۱۱، یونس:۹۸)
حضرت یونس علیہ السلام کی اس دردناک سرگزشت کو قرآن کریم نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے:۔
وَ اِنَّ یُوۡنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿139﴾ؕاِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوۡنِ ﴿140﴾ۙفَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیۡنَ ﴿141﴾ۚفَالْتَقَمَہُ الْحُوۡتُ وَ ہُوَ مُلِیۡمٌ ﴿142﴾فَلَوْلَاۤ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیۡنَ ﴿143﴾ۙلَلَبِثَ فِیۡ بَطْنِہٖۤ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوۡنَ ﴿144﴾ۚؒفَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَآءِ وَ ہُوَ سَقِیۡمٌ ﴿145﴾ۚوَ اَنۡۢبَتْنَا عَلَیۡہِ شَجَرَۃً مِّنۡ یَّقْطِیۡنٍ ﴿146﴾ۚوَ اَرْسَلْنٰہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیۡدُوۡنَ ﴿147﴾ۚفَاٰمَنُوۡا فَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿148﴾                  (پ23،الصافات:139تا148)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک یونس پیغمبروں سے ہے جب کہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا تو قرعہ ڈالا تو دھکیلے ہوؤں میں ہوا پھر اسے مچھلی نے نگل لیا اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے پھر ہم نے اسے میدان پر ڈال دیا اور وہ بیمار تھا اور ہم نے اس پر کدو کا پیڑ اُگایا اور ہم نے اسے لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک برتنے دیا۔
درسِ ہدایت:۔(۱)نینویٰ والوں کی سرگزشت سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب کسی قوم پر کوئی بلا عذاب بن کر نازل ہو تو اُس بلا سے نجات پانے کا یہی طریقہ ہے کہ لوگوں کو توبہ و استغفار میں مشغول ہو کر دعائیں مانگنی چاہیں تو امید ہے کہ بندوں کی بے قراری اور اُن کی گریہ و زاری پر ارحم الرٰحمین رحم فرما کر بلاؤں کے عذاب کو دفع فرما دے گا۔
(۲)حضرت یونس علیہ السلام کی دل ہلا دینے والی مصیبت اور مشکلات سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو کس کس طرح امتحان میں ڈالتا ہے۔ لیکن جب بندے امتحان میں پڑ کر صبر وا ستقامت کا دامن نہیں چھوڑتے اور عین بلاؤں کے طوفان میں بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے تو ارحم الرٰحمین اپنے بندوں کی نجات کا غیب سے ایسا انتظام فرما دیتا ہے کہ کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا۔ غور کیجئے کہ حضرت یونس علیہ السلام کو جب کشتی والوں نے سمندر میں پھینک دیا تو ان کی زندگی اور سلامتی کا کون سا ذریعہ باقی رہ گیا تھا؟ پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا تو اب بھلا ان کی حیات کا کون سا سہارا رہ گیا تھا؟ مگر اسی حالت میں آپ نے جب آیت کریمہ کا وظیفہ پڑھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ و سلامت رکھا اور مچھلی کے پیٹ سے انہیں ایک میدان میں پہنچا دیا اور پھر انہیں تندرستی و سلامتی کے ساتھ اُن کی قوم اور وطن میں پہنچا دیا۔ اور ان کی تبلیغ کی بدولت ایک لاکھ سے زائد آدمیوں کو ہدایت مل گئی۔
Exit mobile version