سایۂ عرش پانے والے تین خُوش نصیب
رسولِ اکرم ،نورِ مجسَّمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ رَحمت نشان ہے :’’ ثلَاَثَۃٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تَحْتَ عَرْشِ اللّٰہِ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلَّہٗ ،قیامت کے روز اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے عرش کے سِوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ، تین شخص اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے عرش کے سائے میں ہوں گے۔‘‘ عرض کی گئی : یارسُولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا : (۱)’’مَنْ فَرَّجَ عَنْ مَکْرُوْبِ اُمَّتِی، وہ شخص جو میرے کسی اُمّتی کی پریشانی دُور کردے ۔ ‘‘(۲) ’’وَمَنْ اَحْیَا سُنَّتِی،میری سُنَّت کو زِندہ کرنے والا ۔‘‘ (۳)’’وَمَنْ اَکْثَرَالصَّلَاۃَعَلَیَّ،اور مجھ پر کثرت سے دُرُود شریف پڑھنے والا۔‘‘ (بستان الواعظین لابن الجوزء، ص۲۶۰،۲۶۱) (البدورالسافرۃ فی امور الاخرۃ للسیوطی، باب الاعمال الموجبۃ۔۔۔ الخ،ص۱۳۱، حدیث: ۳۶۶)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! حُصُولِ بَرَکت ، ترقی ٔ مَعْرِفَت اور میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قُربت حاصل کرنے کیلئے دُرُود و سلام بہترین ذَرِیعہ ہے ، اگر کوئی خُوش نصیب زِندگی بھر اپنیمحسن آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود و سلام کے پھول نچھاور کرتارہے تو روز قیامت اسے نہ
صرف اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا بلکہ وہ مَکی مَدنی سرکار، شفیعِ روزِ شُمار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شَفاعت کا حقدار بھی بن جائے گا لہٰذا ہمیں بھی دن رات اپنے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں خُوب خُوب دُرُود و سلام کے نذرانے پیش کرتے رہنا چاہیے کہ اس کے فَضائل و ثَمَرات بے حساب ہیں ۔ چُنانچہ اس ضِمن میں چند اَحادیثِ مُبارکہ سُنئے اور دُرُودِ پاک کی عادت بنالیجئے ۔
دن رات کے گناہوں کی مُعافی
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے مَحبوب ، دانائے غُیُوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرماتے ہیں : ’’جس نے دن اور رات میں میری طرف شوق و مَحَبَّت کی وَجہ سے تین تین مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ وہ اس کے اس دن اور رات کے گُنا ہ بَخش دے ۔‘‘ (الترغیب والترہیب ، کتاب الذکر والدعاء، باب الترغیب فی اکثار الصلاۃ علی النبی، ۲ / ۳۲۶،حدیث:۲۵۹۲)
تاجدارِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ بشارت نشان ہے: ’’مَنْ صَلَّی عَلَیَّ فِیْ یَوْمٍ خَمْسِیْنَ مَرَّۃً صَافَحْتُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،جودن بھر میں مجھ پر پچاس مرتبہ دُرُود پڑھے گا قیامت کے دن میں اس سے مُصافَحہ کروں گا ۔ ‘‘ (القول البدیع ،الباب الثانی فی ثواب الصلاۃ والسلام علی رسول اللّٰہ،ص۲۸۲)
غموں نے تم کوجو گھیرا ہے
تو دُرُود پڑھو
تاجدار مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :’’ جسے کوئی سخت حاجت دَر پیش ہو تو اسے چاہیے کہ مجھ پر کثرت سے دُرُود شریف پڑھے ۔ کیونکہ یہ مَصائِب و آلام کو دُور کردیتا ، روزی میں بَرَکت اور حاجات کو پورا کرتا ہے۔‘‘(بستان الواعظین وریاض السامعین ،ص۴۰۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
آپ بھی مد نی ماحول سے
وابستہ ہوجائیے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دُرُود و سلام کی عادت بنانے کیلئے تبلیغِ قراٰن و سُنَّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابَستہ ہوجائیے کیونکہ اچھی صُحبت کی بَرَکت سے ہمیں نہ صرف کثرت سے دُرودِ پاک پڑھنے کا جَذْبہ نصیب ہوگا بلکہ میٹھے میٹھے غمخوار آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سُنّتوں کے مُطابق زِندگی گزارنے کی سَعادت بھی حاصل ہوگی کہا جاتا ہے کہ ’’خربوزے کودیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ، تِل کو گُلاب کے پھول میں رکھ دو تو اُس کی صُحبت میں رَہ کر گُلابی ہو جاتا ہے‘‘اِسی طرح دعوتِ اسلامی کے مَدَنی
ماحول سے وابَستہ ہو کر عاشِقانِ رسول کی صُحبت میں رہنے والا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مہربانی سے بے وَقْعَت پتّھر بھی اَنمول ہیرا بن جاتا، خُوب جگمگاتا اور ایسی شان سے پَیکِ اَجَل کو لَبَّیْکَ کہتا ہے کہ دیکھنے، سننے والا (اس پر رَشک کرتااور) جینے کے بجائے ایسی موت کی آرزو کرنے لگتا ہے ۔چُنانچہ اسی ضِمن میں ایک مَدنی بہار سُنئے اور جُھوم اُٹھئے ۔
وقتِ آخر اَوْرَادْ کی تکرار
چَکوال(پنجاب،پاکستان) کے مُقیم ایک اسلامی بھائی کے تَحریری بیان کا خُلاصہ ہے: میرے تایا جان حاجی محمدنسیم عطاری جنہوں نے میری پَرْوَرِش کی امیرِ اہلسنَّت دَامَتْ بَرکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے بے اِنتہا مَحَبَّت کرتے تھے اور مَدینہ مُنوَّرہ (زَادَہَااللّٰہُ شَرَفًاو َّتَعْظِیْماً)سے تو ان کی مَحَبَّت کا یہ عالَم تھا کہ اُنہوں نے اپنی مُلازَمت کے اِختتام پر ملنے والی تمام رقم سفرِحج و زِیارتِ مَدینہ میں خرچ کردی۔ جب میں دعوتِ اسلامی کے مُشکبار مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوا تو میرے سر پر سبز سبز عمامہ شریف دیکھ کر بہت خُوش ہوتے اور کہتے کہ آپ کو دیکھ کر تو مَدینے کی یاد آجاتی ہے ۔ فیضانِ سُنَّت کا دَرس سُنتے تو بے اِختیار رونے لگتے۔ انتقال سے ایک ہفتہ پہلے مسجدمیں نمازیوں سے کہنے لگے کہ ’’ہو سکتا ہے اگلے ہفتے مُلاقات نہ ہو۔‘‘ زِندگی کے آخری تین دن میں نے ا نہیں تین وِرْد
کثرت سے کرتے دیکھا (1)اِسْتِغْفَار (2) کَلِمہ شریف (3) اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ عَلَیْکَ یارَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔ اُنہوں نے اپنی زِندگی کی آخری رات مجھے جگایا اور کہا کہ وضو کر کے آؤ اور مجھے سورۂ یٰسٓ سناؤ ، میں نے حکم کی تعمیل کی ، سورۂ یٰسٓ سُن کر فرمانے لگے مجھے بہت سُکون حاصل ہوا ہے۔17 رَمَضانُ المبارک ۱۴۲۶ھ بمطابق نومبر 2005ئکو میں نے ایک جگہ کام سے جانا تھا۔ میں نے اجازت مانگی تو فرمانے لگے مت جاؤ شاید پھر واپس آنا پڑے ، جب صبح ہوئی تو ان کی آنکھیں چھت پرٹِکی ہوئی تھیں اور پورا جسم یہاں تک کہ بستربھی پسینے سے تَربَتر تھا۔ پانچ منٹ تک ان پر بے ہوشی طاری رہی پھر ہوش میں آئے اور کہنے لگے: ’’وقت بہت کم ہے۔ ‘‘ ہم نے سوچا کہ طبیعت زِیادہ خراب ہے شاید اس لئے ایسی باتیں کر رہے ہیں لہٰذا ہم ا نہیں فوراً اسپتال لے گئے، وہاں پہنچ کر انہوں نے اسپتال میں موجود لوگوں کو اکٹھا کر لیا اور ا نہیں کہا کہ تم بھی کلمہ پڑھو میں بھی پڑھتا ہوں ۔ کچھ لوگوں نے مذاق اُڑانا شُروع کر دیا کہ باباجی مرنے کا کہہ رہے ہیں لیکن لگتا نہیں کہ یہ مریں گے، اسکے بعد تایا جان نے یہ اَلفاظ کہے ’’یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ایک بار پھر مَدینے لے جا۔‘‘ اور پھر کلمہ شریف اور دُرُود و سلام پڑھتے ہوئے انہوں نے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ (اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن)کچھ دنوں بعد مجھ
گناہ گار وبدکار کو خواب میں پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زِیارت کی سعادت نصیب ہوئی ، آپ کے ساتھ میں نے اپنے تایاجان کوبھی دیکھا وہ فرما رہے تھے کہ حاجی مُشتاق عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہ الرّزاق بھی یہیں تشریف فرما ہوتے ہیں ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اچھی صُحْبت اپنا لیجئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آج مُعاشرے کے ناگُفْتَہ بِہ حالات میں گُناہوں کا زور دار سیلاب جسے دیکھو بہائے لئے جا رہا ہے ، ایسے میں دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول کسی نعمتِ عُظمٰی سے کم نہیں ، اِس سے ہر دَم وابَستہ رہئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی بَرَکت سے نیکیاں کرنے ، گُناہوں سے بچنے ، دُرُود وسلام کی عادت بنانے اور سُنَّتوں پر عمل کرنے کا ذِہن بنے گا ۔ یقینا جو شخص اچھی صُحبت کی بَرَکت سے حُضُور جانِ عالمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِطاعت وفرمانبرداری کرتا رہے اور اپنی ساری زِندگی آپ کی سُنَّتوں کی پیروی میں بسر کرتا رہے تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس خُوش نصیب کو جَنَّت میں آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا پڑوس عطا فرمائے گا۔ جیسا کہ
سُنَّت پرعمل کا صِلہ
تاجدارِ رسالت، شَہَنْشاہِ نَبُوَّت،نوشۂ بزمِ جنّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کا فرمانِ جنّت نشان ہے: ’’جس نے میری سُنَّت سے مَحَبَّتکی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنَّت میں میرے ساتھ ہو گا۔‘‘(تاریخ مدینۃ دمشق لابن عساکر، انس بن مالک ،۹/۳۴۳)
یادرکھئے!حُضُورِاَقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرتِ مُبارکہ
اور آپ کی سُنَّتِ مُقدَّسہ کی اِتّباع اور پیروی ہر مُسلمان پرضروری ہے ۔ ربُّ العزَّت عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتاہے :
قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوۡبَکُمْؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۳۱﴾ (پ۳، اٰل عمران:۳۱)
ترجمۂ کنزالایمان:(اے رسول)فرما دیجئے کہ اگرتم لوگ اللّٰہ سے مَحَبَّت کرتے ہو تومیری اتباع کرو اللّٰہ تم کو اپنا محبوب بنا لے گااورتمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللّٰہ بہت زیادہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
اسی لئے آسمانِ اُمَّت کے چمکتے دمکتے ستارے، ہدایت کے چاند تارے ، رسُول اللّٰہ کے پیارے صحابۂ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوان آپ کی ہرہر سُنَّتِ کریمہ کی اتباع کو اپنی زِندگی کے ہر دم قدم پر اپنے لئے لازِمُ الْایمان اور واجبُ العَمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی مُعامَلہ میں اپنے پیارے رسولصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مُقَدَّس سُنَّتوں سے اِنْحِراف یا ترک گوارا نہیں کر تے تھے ۔
اسی عِشْقِ کا مل کے طفیل صحابۂ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوان کو دُنیا میں اِختیار و اِقتدار
اور آخرت میں عِزَّت و وقار ملا۔ یہ انکے عِشْق کا کمال تھا کہ مُشْکل سے مُشْکل گھڑی اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی ا نہیں اِتباعِ رسول سے مُنہ پھیرنا گوارا نہ تھا۔ وہ ہر مرحلہ میں اپنے محبوب آقاصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نقش پا ڈھونڈتے اور اسی کومَشْعلِ راہ بناکر جا دَہ پیما رہتے ۔
لحد میں عشق رخ شہ کا داغ لے کے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے
(حدائقِ بخشش،ص۳۶۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے انسانوں کو زِندگی گزارنے کا طریقہ بتایا اوردو راستے دکھائے ،ایک راستہ جَنَّت کی طرف جاتا ہے اور دوسرے کی اِنتہا جَہنَّم ہے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں سیدھے راستے پر چلنے اور اچھے طریقے پر زِندگی گزارنے کے لئے حُضُور نبیِّ کریم، رء ُوفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِطاعت وفرمانبرداری کا پابندبنا یا اورحُضُور سراپا نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے کردار کو بہترین نُمُونۂ عمل بتایا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیۡ رَسُوۡلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (پ۲۱،الاحزاب:۲۱)
ترجمۂ کنزالایمان:بیشک تمہیں رسُول اللّٰہکی پیروی بہتر ہے۔
حضرتِ صدر ا لْافاضِل مولانا سیِّدمحمد نعیم الدِّین مُراد آبادی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ
الہادی خَزائنُ العرفانمیں اس آیتِ کریمہ کے تَحت فرماتے ہیں :’’ ان کا اچھی طرح اتباع کرو اور دینِ الٰہی کی مَدد کرو اور رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا ساتھ نہ چھوڑو اور رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سُنَّتوں پر چلو یہ بہتر ہے ۔ ‘‘
حضرت جنیدرَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ کوئی شخص بھی اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ)تک اس کی توفیق کے بغیر نہیں پہنچا اور اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) تک پہنچنے کا راستہ محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ کی اِقتدا و اِتباع ہے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِتباع یقینا ہماری زِندگی کے ہر گوشے میں ہمارے لئے مَشْعَلِ راہ ہے ۔جہاں سُنَّت پر عمل کرنے میں ثواب ملتا ہے وَہیں اِس کے کثیر دُنیوی فوائد بھی ہیں ۔ کھانے سے پہلے دونوں ہاتھ پہنچوں تک دھو لینا سُنَّت ہے، مُنہ کا اگلا حصّہ دھونا اور کُلّی بھی کر لینا چاہئے ۔ چُونکہ ہاتھوں سے جدا جدا کام کئے جاتے ہیں اور وہ مختلف چیزوں سے مَس ہوتے ہیں لہٰذا ان پرمَیل کُچیل اور کئی طرح کے جراثیم لگ جاتے ہیں ۔ کھانے سے پہلے ہاتھ دھولینے سے ان کی صَفائی ہوجاتی اور اِس سُنَّت کی بَرَکت کے سَبَب ہمیں کئی بیماریوں سے تَحفُّظ بھی حاصِل ہوجاتا ہے ۔ کھانے سے پہلے دھوئے ہوئے ہاتھ نہ پُونچھے جائیں کہ تولیہ وغیرہ کے جَراثیم ہاتھوں میں لگ سکتے ہیں ۔
ڈرائیور کی پُر اَسرار موت
کہا جاتا ہے کہ ایک ٹرک ڈرائیور نے ہوٹل میں کھانا کھایا اور کھانے کے فوراً بعد تڑپ تڑپ کر مرگیا۔دوسرے کئی لوگوں نے بھی اُس ہوٹل میں کھانا کھایا مگرا نہیں کچھ بھی نہ ہوا۔ تَحْقِیق شُروع ہوئی ، کسی نے بتایا کہ ڈرائیور نے کھانے سے قَبل ہوٹل کے قریب ٹرک کے ٹائر چیک کئے تھے ، پھر ہاتھ دھوئے بِغیر اُس نے کھانا کھایا تھا ۔ چُنانچِہ ٹرک کے ٹائروں کو چیک کیا گیا تو اِنکِشاف ہوا کہ پہیّے کے نیچے ایک زَہریلا سانپ کُچلاگیا تھا جس کا زَہر ٹائر پر پھیل گیا اور وہ ڈرائیور کے ہاتھوں پر لگ گیا ، ہاتھ نہ دھونے کے سَبَب کھانے کے ساتھ وہ زَہر پیٹ میں چلاگیا جو کہ ڈرائیور کی فوری موت کا سَبَب بنا ۔
اللّٰہ کی رَحمت سے سُنَّت میں شَرافت ہے
سرکار کی سُنَّت میں ہم سب کی حفاظت ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اے ہمارے پیارے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں حُضُور جانِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی مَحَبَّت میں آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر دُرُود وسلام پڑھنے کی توفیق عطا فرما اور آپ کی سُنَّتوں پر عمل کی توفیق عطا فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭…٭…٭…٭