جن پر تکیہ تھا وہ پتّے ہوا دے گئے
الحمدللہ جہان نعت کا حمدومناجات نمبرپیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہے اس وقیع موضوع پر چندصفحات ترتیب دے کر شائع کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے بس یہ ایک ناچیزکی جرات ہے۔جس جوش وجذبے سے میں نے حمدومناجات نمبر کااعلان کیاتھاآخرتک برقرارنہیں رہ پایا۔شعراومضامین نگارحضرات نے بھی تعاون کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
اللہ تعالی کی حمد ایک پاکیزہ ترین اور عظیم الشان موضوع بھی ہے لہذا ہمیں اسے اپنے لیے اہم ترین فریضہ متصور کرنا چاہیے۔ کوئی عام شخص اللہ کی حمد و ثنا کرے یا شعراء اس کے بے شمار پہلوؤں پر فکر سخن کریں یقینا اسی مبارک عمل سے رب کریم کی خوشنودی اور رضا حاصل ہوگی۔’’آج موقعہ ہے کہ تو اپنے رب کو پہچان ورنہ کل بروز حشر پچھتانا پڑےگا،
حمدیہ شاعری میں ایک اور نام غلام سرور لاہوری کا ہے مجموعۂ حمدیہ شاعری ’’دیوان احمد ایزدی‘ ۱۸۸۱ء مطبع نولکشور حمدیہ شاعری کا پہلا دیوان قرار دیا گیا تھا۔ صوفی غوث علی شاہ بیابانی خاقان نے بھی حمدیہ کلام کا ایک دیوان ’’مخزن عرفان‘‘ تصنیف کیا تھا جو اب کمیاب ہے۔
حمد باری تعالی کے سلسلے میں پاکستان میں اب کام ہو رہا ہے اور حمد و نعت کے مجموعے بھی شائع ہو رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں اس سلسلے میں باقاعدہ کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ یہ پاکیزہ اصناف سخن اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں شامل نہیں ہیں۔
حمد باری تعالیٰ کے سلسلے میں ریاض مجید کی پیش کردہ معلومات پیش ہیں جس کے متعلق وہ اپنے مضمون حمدیہ قطعات (جہان حمد) میں صفحہ ۱۱۰ میں فرماتے ہیں:
’’جہاں تک اردو میں جداگانہ حمدیہ مجموعوں کا تعلق ہے، انکی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے ’’اردو میں حمد کا پہلا دیوان‘‘ کے عنوان سے لکھے جانے والے مقالہ (مطبوعہ مجلہ حضرت حسان نعت ایوارڈ کراچی ۱۴۱۱ھ ۱۹۹۱ء) میں ابرار حسین نے جن حمدیہ دواوین اور شعری مجموعوں کا ذکر کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ دیوان حمد ایزدی مفتی غلام سرورلاہور ۱۸۸۱ء صفحات ۱۰۰
۲۔ نذر خدا مضطر خیر آبادی آگرہ ۱۹۱۲ صفحات ۳۱۲
۔ لا شریک طفیل راسا آئینہ ادب لاہور ۱۹۸۰
۴۔ الحمد مظفر وارثی لاہور ۱۹۸۴ صفحات ۱۰۴
۵۔ صحیفۂ حمد لطیف اثرؔ کراچی ۱۹۸۸ صفحات ۲۳۰
۶۔ ذو الجلال والاکرام حافظ لدھیانوی فیض آباد ۱۹۸۶ صفحات ۱۸۲
۷۔ سبحان اللہ و بحمدہ حافظ لدھیانوی فیض آباد ۱۹۹۰ صفحات ۱۶۰
۸۔ سبحان اللہ العظیم حافظ لدھیانوی فیض آباد ۱۹۸۶ صفحات ۱۵۲
۹۔ حضور حق تعالی کاوش زیدی ۱۹۹۰ صفحات ۱۵۲
۶۰ کے قریب غزل کی صنف میں اور باقی نظم کی مختلف ہیئتوں میں۔
اس فہرست میں لطیف اثر کے حرف مجموعہ محامد ’’صحیفۂ حمد‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ ان کی دیگر کتب بھی ہیں۔ ان کی تفصیلحسب ذیل ہے:
صحیفۂ ذات لطیف اثرؔ کراچی ۱۹۹۲ء مجموعۂ حمد
اللہم لطیف اثرؔ کراچی ۱۹۹۲ء مجموعۂ حمد
طلوع حمد لطیف اثرؔ کراچی ۱۹۹۲ء مجموعۂ حمد
زیر ترتیب کتب:
شعاع نور لطیف اثرؔ کراچی مجموعۂ حمد
تجلیات نور لطیف اثرؔ کراچی مجموعۂ حمد
الا ہو انتخاب محامد ابرار کرت پوری ناشرآل انڈیاتحریک فکرنعت ہیرور
ہندوستان میں ابرار کرت پوری کے کئی مجموعے محامد کے شائع ہوئے اور چند زیر طبع ہیں جن کی تفیصل حسب ذیل ہے:
خالق ذو الجلال مجموعۂ محامد ابرار کرت پوری ۱۹۹۴ء
قسام ازل مجموعہ محامد ابرار کرت پوری ۲۰۰۴ء
حمد کہوں تو ہو اجیارا مجموعۂ محامد ابرار کرت پوری ۲۰۰۸ء
زیر طبع کتب
مالک یوم الدین مجموعۂ محامد ابرار کرت پوری
ایاک نعبد مجموعۂ محامد ابرار کرت پوری
و ایاک نستعین مجموعۂ محامد ابرار کرت پوری
سخن سخن اس کا مجموعۂ محامد ابرار کرت پوری
ان تمام کتب کے بارے میں جان کر بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں شعراء کرام کی توجہ حمد باری کی طرف نہایت ہی کم ہے۔ البتہ پاکستان میں یہ سلسلہ تیزی سے اور احترام کے ساتھ جاری ہے وہاں حمدیہ مجموعے بھی زیادہ تعداد میں شائع ہونے لگے ہیں۔
ایک فہرست جناب طاہرسلطانی نے بھی پیش کی ہے آئندہ صفحات میں ملاحطہ فرمائیں گے۔ ان دوفہرستوں میںسب سے قابل غور بات یہ ہے کہ تو منیراحمد جامی مدیرروزنامہ سیاست بنگلور کو فراموش کیاگیاہے جو ریاست کرناٹک پہلے صاحب مجموعۂ حمداور عالمی اردو ادب کے ساتویں یاآٹھویںشاعر ہیں۔مجموعہ کلام حرف تمام 1988میں شائع ہوا۔اور ریاست میں صنف حمدکے حوالے سے محترمہ ڈاکٹرسلمیٰ کولور(دھارواڑ) کی نثری کتاب اردوادب میں حمدیہ شاعری کوبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔
ایک اور باربڑے کرب کے ساتھ کہہ رہاہوں
ارادہ تھا کہ خاص نمبر کی مناسبت سے محنت کرکے اچھا سا اداریہ لکھوں لیکن ان دنوں مسائل کی کثرت نے ذہن کو غیر حاضر کر رکھا ہے۔ نمبر کی تیاری میں ابتدا میں جن علما و اہلِ قلم نے تعاون کے دعوے اور وعدے کیے تھے، وہی لوگ آخری لمحوں میں دھوکہ دے گئے۔ یعنی ؎جن پر تکیہ تھا وہ پتّے ہوا دے گئے۔ ہم نے بعض احباب کو مضمون لکھنے کے پیسے بھی دیے لیکن انہوں نے اُن پیسوں کا حق ادا نہیں کیا۔ تین مہینے (۹۰ دن) ایک مضمون لکھنے کے لیے کم نہیں ہوتے، مگر مسلسل رابطوں کے بعد آخری لمحوں میں انھوں نے مضمون بھیجا، وہ بھی کوئی خاص نہیں۔
اس نمبر کی تیاری میں ہمیں ناکوں چنے چبانا پڑے۔ ویسے ہی کون ہمیں اچھے اور بہترین مضامین سے نوازتا ہے جو نمبر کے لیے کوئی قلمی تعاون کرتا۔ پھر بھی اللہ و رسول ﷺ کا فیضان ہم پر جاری ہے اس لیے اتنا بڑا اعلان کربیٹھے۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تب جاکر یہ مختصر نمبر تیار ہوکر آپ کے ہاتھوں میں آیا۔ جن اہلِ قلم حضرات نے اپنی تحقیقی نگارشات و مقالات سے ہمیں نوازا، اس کا اجر تو انھیں اللہ ہی دے گا، مگر ہم اُن کے بہت مشکور و ممنون ہیں ورنہ اُن کے تعاون کے بغیر یہ نمبر شائع ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ جزاک المولیٰ تعالیٰ
ہم نے کبھی کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی اس خصوصی شمارے کو شائع کرکے کوئی تیر مارا ہے۔ یہ احقر کے دلی جذبات اورحمدونعت سے عقیدت و محبت سے گوندھا ہوا ایک تحفہ ہے۔
آج کے حالات میں دنیا میں کسی سے کچھ اُمید رکھی جاسکتی ہے نہ توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ خصوصی شمارہ آپ کو جیسا بھی لگا ہو، اگر اللہ توفیق دے، زندگی مہلت دے تو اس عاصی سیہ کار کے لیے ایک بار حُسن خاتمے کی ضرور دعا کیجیے گا۔
اللہ حافظ و ناصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غلام ربانی فدا