(۱)مرید کو چاہے کہ اپنے پیر کا ظاہر و باطن میں سامنے اور پیٹھ پیچھے انتہائی ادب و احترام رکھے پیر جو وظیفہ بتائے اس کو پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے اور اپنے پیر کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ جس قدر ظاہری اور باطنی فیض مجھے اپنے پیر سے مل سکتا ہے اتنا اس زمانے کے کسی بزرگ سے نہیں مل سکتا۔
(۲)اگر پیر نے اپنے مرید کا دل ابھی اچھی طرح نہ سنوارا ہو اور پیر کا وصال ہوجائے تو مرید کو چاہے کہ کسی دوسرے پیر کامل سے جس میں پیری کی سب شرائط پائی جاتی ہوں اس سے مرید ہو کر فیض حاصل کرے اور پہلے پیر کے لئے ہمیشہ فاتحہ دلاتا اور ایصال ثواب کرتا رہے۔
(۳)بغیر اپنے پیر سے پوچھے ہوئے کوئی وظیفہ یا فقیری کا کوئی عمل نہ کرے اور جو کچھ دل میں برے یا اچھے خیالات پیدا ہوں یا نئے کام کا ارادہ کرے تو پیر سے پوچھ لیا کرے۔
(۴)عورت کو چاہے کہ اپنے پیر کے سامنے بے پردہ نہ ہو اور مرید ہوتے وقت پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر مرید نہ ہو بلکہ پیر کا رومال پکڑکر مرید بنے۔
(۵)اگر غلطی سے کسی خلاف شرع پیر کا مرید بن گیا یا پہلے وہ پیر شریعت کا پابند تھا اب بگڑ گیا تو مرید کو لازم ہے کہ اس کی بیعت توڑدے اور کسی دوسرے پابند شریعت پیر سے مرید ہو جائے لیکن اگر پیر میں کوئی ہلکی سی خلاف شریعت بات کبھی دیکھ لے تو فوراً اعتقاد خراب نہ کرے اور یہ سمجھ لے کہ پیر بھی آدمی ہی ہے کوئی فرشتہ تو ہے نہیں اس لئے اگر اس سے اتفاقیہ کوئی معمولی سی خلاف شرع بات ہوگئی ہے جو توبہ کر لینے سے معاف ہوسکتی ہے تو ایسی بات پر بدظن ہو کر پیر کو نہ چھوڑے ہاں البتہ اگر پیر بدعقیدہ ہو جائے یا کسی گناہ کبیرہ پر اڑا رہے تو پھر مریدی توڑ دے کیونکہ بدعقیدہ اور فاسق معلن کو اپنا پیر بنانا حرام ہے۔
(۶)آج کل کے مکار فقیر کہا کرتے ہیں کہ شریعت کا راستہ اور ہے اور فقیری کا راستہ اور ہے ۔ ایسا کہنے والے فقیر خواہ کتنا ہی شعبدہ دکھائیں مگر ان کے بارے میں یہی عقیدہ رکھنا فرض ہے کہ یہ گمراہ اور جھوٹے ہیں اور یاد رکھو کہ ایسے فقیروں سے مرید ہونا بہت بڑا گناہ ہے اور وہ جو کچھ تعجب خیز چیزیں دکھلا رہے ہیں وہ ہر گز ہرگز کرامت نہیں بلکہ جادو یا نظر بندی کا عمل یا شیطان کا دھوکا ہے۔ (دیکھو ہماری کتاب معمولات الابرار)
(۷)اگر پیر کے بتائے ہوئے وظیفوں سے دل میں کچھ روشنی یا اچھی حالت پیدا ہو یا اچھے اچھے خواب نظر آئیں یا خواب و بیداری میں بزرگوں کا دیدار اور ان کی زیارت ہونے لگے یا نماز اور وظیفہ میں کوئی چمک پید اہو یا کوئی خاص کیفیت یا لذت محسوس ہو تو خبردار! خبردار ان باتوں کا اپنے پیر کے سوا کسی دوسرے سے ذکر نہ کرے نہ اپنے وظیفوں اور عبادتوں کا پیر کے علاوہ کسی کے سامنے اظہار کرے کیونکہ ظاہرکر دینے سے یہ ملی ہوئی روحانی دولت چلی جاتی ہے اور پھر مرید عمر بھر ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔
(۸)اگر پیر کے بتائے ہوئے وظیفہ یا ذکر کا کچھ مدت تک کوئی اثر یا کیفیت نہ ظاہر ہو تو اس سے تنگ دل اور پیر سے بدظن نہ ہو اور اس کو اپنی خامی یاکوتاہی سمجھے اور یوں سمجھے کہ بڑا اثر یہی ہے کہ مجھے اﷲعزوجل کا نام لینے کی توفیق ہو رہی ہے ہر مرید میں پیدائشی طور پر الگ الگ صلاحیت ہوا کرتی ہے ایک ہی وظیفہ اور ایک ہی ذکر سے کسی میں کوئی اثر پیدا ہوتا ہے اور کسی میں کوئی دوسری کیفیت پیدا ہوتی ہے کسی میں جلد اثر ظاہر ہوتا ہے کسی میں بہت دیر کے بعد اثرات ظاہر ہوتے ہیں جس میں جیسی اور جتنی صلاحیت ہوتی ہے اسی لحاظ سے وظیفوں اور ذکر کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں یہ ضروری نہیں کہ ہرمرید کا حال یکساں ہی ہو بہر حال اگر وظیفہ و ذکر سے کچھ کیفیات پیدا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرے اور اگر کچھ اثرات نہ ہوں یا کم ہوں یا اثرات ہوکر کم ہو جائیں یا بالکل اثرات و کیفیات زائل ہو جائیں تو ہرگز ہرگز پیر سے بد اعتقاد ہو کر ذکر اور وظیفہ کو نہ چھوڑے بلکہ برابر پڑھتا رہے اور پیر کا ادب و احترام بدستور رکھے اور ذرا بھی تنگ دل نہ ہو اور یہ سوچ سوچ کر صبر کرے اور اپنے دل کو تسلی دیتا رہے کہ۔
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
(۱)ہر مرید کو لازم ہے کہ دوسرے بزرگوں یا دوسرے سلسلہ کی شان میں ہرگز ہرگز کبھی کوئی گستاخی اور بے ادبی نہ کرے نہ کسی دوسرے پیر کے مریدوں کے سامنے کبھی یہ کہے کہ میرا پیر تمہارے پیر سے اچھا ہے یا ہمارا سلسلہ تمہارے سلسلہ سے بہتر ہے نہ یہ کہے کہ ہمارے پیر کے مرید تمہارے پیر سے زیادہ ہیں یا ہمارے پیر کا خاندان تمہارے پیر کے خاندان سے بڑھ چڑھ کر ہے کیونکہ اس قسم کی فضول باتوں سے دل میں اندھیرا پیدا ہوتا ہے اور فخر و غرو رکا شیطان سر پر سوار ہو کر مرید کو جہنم کے گڑھے میں گرا دیتا ہے اور پیروں و مریدوں کے درمیان نفاق و شقاق، پارٹی بندی اور قسم قسم کے جھگڑوں کا اور فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔