”حنین” مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام ”غزوہ ہوازن” بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں ”بنی ہوازن” سے مقابلہ تھا۔
فتح مکہ کے بعد عام طورسے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثروہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود
قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں توقف کررہے تھے اور فتح مکہ کا انتظار کررہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھاسکیں۔
لیکن مقام حنین میں ”ہوازن” اور ”ثقیف” نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فنون جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتح مکہ کا اُلٹا اثر پڑا۔ ان لوگوں پر غیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتح مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیااور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیس اعظم مالک بن عوف ان تمام افواج کا سپہ سالار ہے اور سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا۔ ”درید بن الصمہ” جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شوال ۸ ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔
دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سے آپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ”آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔”
لیکن خداو ند عالم عزوجل کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اورہزاروں کی تعداد میں تلواریں لےکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفار مکہ جو لشکر اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدار دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھامگر خداعزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پائے استقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالم کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
اسی حالت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دا ہنی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پکارا کہ ” یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ” فورًا آواز آئی کہ ”ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲ!” صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پھر بائیں جانب رخ کرکے فرمایا کہ ”یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ” فوراً آواز آئی کہ ”ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲ!” صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ،حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے۔ آپ نے ان کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو ” یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَار” اور ” یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ” کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے ازدحام کی و جہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زدن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے کچھ قتل ہو گئے جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلما نو ں سے لڑتی رہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے۔ لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداﷲ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتح مبین نے حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا۔(1)(بخاری ج۲ ص۶۲۱ غزوۂ طائف)
یہی وہ مضمون ہے جس کو قرآن حکیم نے نہایت مؤثر انداز میں بیان فرمایا کہ
وَّیَوْمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنۡکُمْ شَیْـًٔا وَّضَاقَتْ عَلَیۡکُمُ الۡاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدْبِرِیۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾ثُمَّ اَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ۚ وَعَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۶﴾ (1)(توبہ)
اور حنین کا دن یاد کرو جب تم اپنی کثرت پر نازاں تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اتنی وسیع ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے پھر اﷲ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول اور مسلمانوں پر اور ایسے لشکروں کو اتار دیا جو تمہیں نظر نہیں آئے اور کافروں کو عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔
حنین میں شکست کھا کر کفار کی فوجیں بھاگ کر کچھ تو ”اوطاس” میں جمع ہوگئیں اور کچھ ”طائف” کے قلعہ میں جا کر پناہ گزین ہو گئیں۔ اس لئے کفار کی فوجوں کو مکمل طور پر شکست دینے کے لئے ”اوطاس” اور ”طائف” پر بھی حملہ کرنا ضروری ہو گیا۔