طُلُوعِ آفتاب کے فوراً بعد اور غُروبِ آفتاب کے آخِری لمحات میں کم از کم بارہ بارہ مِنَٹ کیلئے (موسم کے لحاظ سے وقت میں کمی پیشی کر کے)بچّے کو ایسی جگہ لٹایئے یا بٹھایئے جہاں مکمَّل دھوپ آتی ہو، ہر عُمر میں دھوپ کھانا ضَروری ہے لہٰذا اِنہیں اَوقات میں ہر ایک کو اتنی دیر تک مکمَّل دھوپ میں رہنا چاہیے کہ کھال گرْم ہو جائے ۔ بیان کردہ اَوقات بہترین ہیں ، اگر نہ بن پڑے تو دن بھر میں کسی بھی وَقت میں کچھ نہ کچھ دھوپ حاصِل کر لینی چاہئے ۔اگر چھاؤں میں ہوں اور دھوپ آنی شروع ہو جائے تو کچھ دھوپ اور کچھ چھاؤں میں مت بیٹھئے بلکہ وہاں سے ہٹ جایئے یا مکمَّل دھوپ میں آجایئے یا مکمَّل چھاؤں میں۔ حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،سرکارِمدینۂ منوّرہ ، سردارِمکّۂ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ شفقت نشان ہے:تم میں اگر کوئی سائے میں بیٹھا ہو اور اُس پر سے سایہ ہٹ جائے اس کا کچھ حصّہ دھوپ میں اورکچھ سائے میں ہو جائے تو اُس کوچاہئے کہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہو۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاو،د ،ج4ص338،حدیث4821دار احیاء التراث العربی بیروت)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں:یا تو سایہ میں ہی چلا جاوے یا بالکل دھوپ میں ہو جاوے کیونکہ سایہ ٹھنڈا ہے اور دھوپ گرم اور بیک وَقت ایک جسم پر ٹھنڈک و گرمی لینا صحّت کیلئے مُضِر(نقصان دِہ)ہے اس لئے ایسا نہ کرے نیز یہ شیطانی نشست ہے جس سے شیطان خوش ہوتا ہے لہٰذا اس تشبیہ سے بچنا ضَروری ہے۔ ( مراٰۃ ج 6 ص 387)