قیدیوں میں حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ یہ بنو نضیر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں اور ان کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق بھی بنونضیر کا رئیس اعظم تھا۔ جب سب قیدی جمع کئے گئے تو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان میں سے ایک لونڈی مجھ کو عنایت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دے دیا کہ خود جاکر کوئی لونڈی لے لو۔ انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لے لیا۔ بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس پر گزارش کی کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
اَعْطَیْتَ دِحْیَۃَ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ سَیِّدَۃَ قُرَیْظَۃَ وَالنَّضِیْرِ لَاتَصْلُحُ اِلَّا لَکَ(2)(ابوداؤد ج ۲ ص۴۲۰ باب ماجاء فی سھم الصفی )
یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے صفیہ کو دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ کردیا۔ وہ قریظہ اور بنونضیر کی رئیسہ ہے وہ آپ کے سوا کسی اورکے لائق نہیں ہے۔
یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت دحیہ کلبی اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بلایا اور حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایاکہ تم اس کے سوا کوئی دوسری لونڈی لے لو۔ اس کے بعد حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آزاد کرکے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمالیا اور تین دن تک منزل صہبا میں ان کو اپنے خیمہ میں سرفراز فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دعوت ولیمہ میں کھجور، گھی، پنیر کا مالیدہ کھلایا۔(1)
(بخاری جلد ۱ص ۲۹۸ باب ھل یسافر بالجاریہ و بخاری جلد ۲ ص ۷۶۱ باب اتخاذالسراری ومسلم جلد۱ص ۴۵۸ باب فضل اعتاق امتہ )