عبادت

   قرآن شریف کی اصطلاحوں میں عبادت بھی بہت اہم اور نازک اصطلاح ہے ۔کیونکہ یہ لفظ قرآن شریف میں بہت کثرت سے آیا ہے اور اس کے معنے میں نہایت باریکی ہے ۔ اطاعت ، تعظیم ، عبادت ان تینوں میں نہایت لطیف فرق ہے بعض لوگ اس نازک فرق کا اعتبار نہیں کرتے ۔ ہر تعظیم کو بلکہ ہر اطاعت کو عبادت کہہ کر سارے مسلمانوں بلکہ اپنے بزرگوں کو بھی مشرک وکافر کہہ دیتے ہیں ۔ اس لئے اس کا مفہوم ، اس کا مقصو د ، بہت غور سے سنیئے ۔
    عبادت عبدٌ سے بنا ہے بمعنی بندہ، عبادت کے لغوی معنی ہیں بندہ بننا یا اپنی بندگی کا اظہار کرنا جس سے لازم آتا ہے معبود کی الوہیت کا اقرار کرنا مفسرین نے اس کی تعریف انتہائی تعظیم بھی کی ہے اورانتہائی عاجزی بھی۔دونوں تعریفیں درست ہیں کیونکہ عابدکی انتہائی عاجزی سے معبودکی انتہائی تعظیم لازم ہے اور معبود کی انتہائی تعظیم سے عابد کی انتہائی عاجزی مستلزم۔ انتہائی تعظیم کی حد یہ ہے کہ معبود کی وہ تعظیم کی جاوے جس سے زیادہ تعظیم ناممکن ہو او راپنی ایسی عاجزی کی جاوے جس سے نیچے کوئی درجہ متصور نہ ہو اس لئے عبادت کی شرط یہ ہے کہ بندگی کر نیوالا معبود کو الٰہ اور اپنے کو اس کا بندہ سمجھے یہ سمجھ کر جو تعظیم بھی اس کی کریگا عبادت ہوگی ۔ اگر اسے الٰہ نہیں سمجھتا ۔ بلکہ نبی ، ولی ، باپ ، استاد ، پیر ، حاکم ، بادشاہ سمجھ کر تعظیم کرے تو اس کا نام اطا عت ہوگا ۔ توقیر ، تعظیم ، تبجیل ہوگا ، عبادت نہ ہوگا غرضیکہ اطاعت وتعظیم تو اللہ تعالیٰ اور بندوں سب کی ہوسکتی ہے لیکن عبادت اللہ تعالیٰ ہی کی ہوسکتی ہے بندے کی نہیں اگر بندے کی عبادت کی تو شرک ہوگیا اور اگر بندے کی تعظیم کی تو جیسا بندہ ویسا اس کی تعظیم کا حکم ۔کوئی تعظیم کفر ہے، جیسے گنگا جمنا ، ہولی ، دیوالی کی تعظیم ۔ کوئی تعظیم ایمان ہے جیسے پیغمبر کی تعظیم، کوئی تعظیم ثواب ہے، کوئی گناہ ۔ اسی لئے قرآن کریم میں عبادت کے ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ یا رب یاالٰہ کا ذکر ہے اور اطاعت وتعظیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے اورنبی کا بھی ، ماں باپ کا بھی حاکم کا بھی فرماتا ہے :
(1) وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیۡنِ اِحْسَانًا
آپ کے رب نے فیصلہ فرمادیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:23)
(2) مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّیۡ وَرَبَّکُمْ
نہیں کہا تھا میں نے ان سے مگر وہ” ہی” جس کاتو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارارب ہے ۔(پ7،المائدۃ:117)
(3) یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمْ
اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کر و
جس نے تمہیں پیدا کیا ۔(پ1،البقرۃ:21)
(4) نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ
ہم عبادت کر ینگے آپ کے الٰہ کی اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسمٰعیل اور اسحق کے الٰہ کی۔ علیہم السلام(پ1،البقرۃ:133)
 (5) قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
فرمادو اے کافر و جن کی تم پوجا کرتے ہو ان کی پوجا میں نہیں کرتا ۔(پ30،الکا فرون:1۔2)
    ان جیسی ساری عبادت کی آیتو ں میں صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوگا لیکن اطاعت وتعظیم میں سب کا ذکر ہوگا۔
(1) اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمْرِ مِنۡکُمْ
اطا عت کرواللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور اپنے میں سے حکم والوں کی ۔(پ5،النسآء:59)
(2) مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ
جس نے رسول کی فرمانبرداری کی اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی ۔(پ5،النسآء:80)
(3) وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ
نبی کی مدد کرو اور ان کی تعظیم وتو قیر کر و۔(پ26،الفتح:9)
(4) فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ
پس جو ایمان لائے نبی پر اور تعظیم کی ان کی اور مدد کی ۔(پ9،الاعراف:157) (5) وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ ﴿۳۲﴾
اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلی پرہیز گاری ہے ۔(پ17،الحج:32)
    غرضیکہ تعظیم واطاعت بندے کی بھی ہوسکتی ہے لیکن عبادت صرف اللہ کی جب عبادت میں یہ شرط ہے کہ الٰہ جان کر کسی کی تعظیم کرنا تو یہ بھی سمجھ لو کہ الٰہ کون ہے اس کی پوری تحقیق ہم الٰہ کی بحث میں کر چکے کہ الٰہ وہ ہے جسے خالق مانا جائے یا خالق کے برابر ۔ برابری خواہ خدا کی اولاد مان کر ہو یا اس طر ح مستقل مالک ، حاکم ، حی ، قیوم مان کریا اللہ تعالیٰ کو اس کا حاجت مند مان کر ہو ۔ ایک ہی کام اس عقیدے سے ہو تو عبادت ہے اور اس عقیدے کے بغیر ہو تو عبادت نہیں۔
دیکھو رب تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو :
(1) فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾
پس جب میں انہیں برابر کردو ں اور ان میں اپنی روح پھونک دو ں تو تم ان کیلئے سجدہ میں گر جاؤ۔(پ14،الحجر:29)
(2) وَرَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوۡا لَہٗ سُجَّدًا
اور یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت پراٹھالیا اور وہ سب ان کے سامنے سجدے میں گر گئے ۔(پ13،یوسف:100)
    ان آیتو ں سے پتا لگا کہ فرشتو ں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں سجدہ کیا اور بھی امتوں میں سجدہ کا رواج تھا کہ چھوٹے بڑوں کو سجدہ کرتے تھے پھر یہ بھی فرمایا :
(3) لَا تَسْجُدُوۡا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوۡا لِلہِ
سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو ۔اور اللہ کوسجدہ کر و۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:37)
    اس قسم کی بہت آیتو ں میں سجدہ کرنے کو منع فرمایا گیا بلکہ اسے کفر قرار دیا ۔ پچھلی آیتو ں میں سجدہ تعظیمی مراد ہے اور ان آیتو ں میں سجدہ تعبدی مراد ہے ۔ بندوں کو تعبدی سجدہ نہ اس سے پہلے کسی دین میں جائز تھا نہ ہمارے اسلام میں جائز، ہمیشہ سے یہ شرک ہے سجدہ تعظیمی پہلے دینوں میں جائز تھا ہمارے اسلام میں حرام، لہٰذا کسی کو سجدہ تعظیمی کرنا اب حرام ہے شرک نہیں ۔ لیکن سجدہ تعبدی کرنا شرک ہے ۔ ایک ہی کام الوہیت کے عقیدے سے شرک ہے اور بغیر عقیدہ الوہیت شرک نہیں مسلمان سنگ اسود، مقام ابراہیم ، آب زمزم کی تعظیم کرتے ہیں مشرک نہیں مگر ہندو بت یا گنگا جل کی تعظیم کرے تو مشرک ہے کیونکہ مومن کا عقیدہ ان چیز وں کی الوہیت کا نہیں اور کفار کا عقیدہ الوہیت کا ہے ۔
Exit mobile version