اگر اس وجہ سے کہ مال کثیر اور برسوں کی زکوٰۃ ہے یہ رقم وافر دیتے ہُوئے نفس کو درد پہنچے گا، تو اوّل تو یہ ہی خیال کر لیجئے کہ قصور اپنا ہے سال بہ سال دیتے رہتے تو یہ گٹھڑی کیوں بندھ جاتی، پھر خدائے کریم عزّو جل، کی مہربانی دیکھئے، اس نے یہ حکم نہ دیا کہ غیروں ہی کو دیجئے بلکہ اپنوں کو دینے میں دُونا ثواب رکھا ہے، ایک تصدّق کا، ایک صلہ رحم کا۔ تو جو اپنے گھر سے پیارے،دل کے عزیزہوں جیسے بھائی، بھتیجے، بھانجے، انھیں دے دیجئے کہ ان کا دینا چنداں ناگوار نہ ہوگا، بس اتنا لحاظ کر لیجئے کہ نہ وہ غنی ہو نہ غنی باپ زندہ کے نا بالغ بچّے، نہ اُن سے علاقہ زوجیت یا ولادت ہو یعنی نہ وُہ اپنی اولاد میں نہ آپ انکی اولاد میں۔ پھر اگر رقم ایسی ہی فراواں(یعنی کثیر) ہے کہ گویا ہاتھ بالکل خالی ہُوا جاتا ہے تو دئے بغیر تو چھٹکارا نہیں، خدا کے وہ سخت عذاب ہزاروں برس تک جھیلنے بہت دشوار ہیں، دُنیا کی یہ چند سانسیں تو جیسے بنے گزر ہی جائیں گی۔