آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لعابِ دہن(تھوک)زخمیوں اور بیماریوں کے لئے شفاء اور زہروں کے لئے تریاقِ اعظم تھا۔ چنانچہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاؤں میں غار ثور کے اندر سانپ نے کاٹا۔ اس کا زہر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لعابِ دہن سے اتر گیا اور زخم اچھا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے آشوبِ چشم کے لئے یہ لعاب دہن ”شفاء العین” بن گیا۔ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آنکھ میں جنگ بدر کے دن تیر لگا اور پھوٹ گئی مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لعاب دہن سے ایسی شفا حاصل ہوئی کہ درد بھی جاتا رہا اور آنکھ کی روشنی بھی برقرار رہی۔ (زاد المعاد غزوۂ بدر)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر تیر لگا،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیا فوراً ہی خون بند ہو گیا اور پھر زندگی بھر ان کو کبھی تیر و تلوار کا زخم نہ لگا۔(1)(اصابہ تذکرۂ ابو قتادہ)
شفاء کے علاوہ اور بھی لعاب دہن سے بڑی بڑی معجزانہ برکات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ایک کنواں تھا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو اس کا پانی اتنا شیریں ہو گیا کہ مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر کوئی شیریں کنواں نہ تھا۔(2)(زرقانی ج۵ ص ۲۴۶)
امام بیہقی نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم عاشوراء کے دن دودھ پیتے بچوں کو بلاتے تھے اور ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیتے تھے۔ اور ان کی ماؤں کو حکم دیتے تھے کہ وہ رات تک اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہی لعاب دہن ان بچوں کو اس قدر شکم سیر اور سیراب کردیتا تھا کہ ان بچوں کو دن بھر نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس۔(1)(زرقانی ج۵ ص۲۴۶)
جس کے پانی سے شاداب جان و جناں
اس دہن کی طراوت پہ لاکھوں سلام
جس سے کھاری کنوئیں شیرۂ جاں بنے
اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام