ايصالِ ثواب کابیان

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَمِنَ الۡاَعْرَابِ مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ ؕ سَیُدْخِلُہُمُ اللہُ فِیۡ رَحْمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾
ترجمہ کنزالایمان:     اور کچھ گاؤں والے وہ ہيں جو(۱) اللہ اور قيا مت پر ايمان رکھتے ہيں(۲) اور جو خرچ کريں اسے اللہ کی نزديکيوں اور رسول سے دعائيں لينے کا ذريعہ سمجھيں(۳) ہاں ہاں وہ ان کے لئے باعث قرب ہے اللہ جلد انہيں اپنی رحمت ميں داخل کریگا(۴) بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ۱۱ ، التوبۃ:۹۹ )
تفسير:
    (۱) اس آيت ميں يا  تو قبيلہ مزنيہ والے مراد ہيں ،يا  اسلم و غفار اور جہينہ کے لوگ، اس سے معلوم ہوا کہ اگر اللہ کا کرم شاملِ حال ہو تو دور والے فيض پاليتے ہيں، ورنہ نزديک والے بھی محروم رہتے ہيں۔ ابوجہل مکہ ميں رہ کر کافر رہا اور يہ لوگ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلمسے دور رہتے ہوئے بھی مومن، متقی، پرہيزگار ہوئے سبحان اللہ وہاں قربِ روحانی قبول ہے۔ 
    (۲) اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ايک يہ کہ اللہ اور قيا مت کا ماننے والا
وہی ہے جو حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم پر ايمان لائے کيونکہ دوسرے گنوار بھی اللہ تعالیٰ اور قيا مت کو مانتے تھے مگر انہيں منکرين ميں شامل کيا  گيا ۔ دوسرے يہ کہ تمام اعمال پر ايمان مقدم ہے، ايمان جڑ ہے اور نيک اعمال شاخيں۔ خيا ل رہے کہ اللہ اور قيا مت کے ايمان ميں تمام ايمانيا ت داخل ہيں۔ لہٰذا قيا مت ،جنت، دوزخ، حشر، نشر سب ہی پر ايمان ضروری ہے جيسے ہم کہتے ہيں نماز ميں الحمد پڑھنا ضروری ہے يعنی پوری سورئہ فاتحہ۔
    (۳) اس سے معلوم ہوا کہ نيک اعمال ميں اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کی خوشنودی کی نيت کرنی شرک نہيں بلکہ قبوليت کی دليل ہے رب فرماتا ہے: وَاللہُ وَرَسُوۡلُہٗۤ اَحَقُّ اَنۡ یُّرْضُوۡہُ صحابہ صدقات ميں حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کی رضا کی نيت کرتے تھے ۔اس ميں ايصالِ ثواب اور فاتحہ کا ثبوت ہے يعنی نيک عمل پر عرض کرنی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم ان کے متعلق دعا فرمائيں کہ مولیٰ قبول فرما کر ان لوگوں کو ثواب دے۔ فاتحہ ميں يہی کہا جاتا ہے کہ اس صدقے وغيرہ کا ثواب فلاں کو دے۔ اب بھی چاہیے کہ صدقہ لينے والا دينے والے کو دعا خير دے۔
    (۴) اس آيت ميں ان کے صدقات کی قبوليت کی خبر ہے۔ معلوم ہوا کہ کوئی مسلمان صحابہ کے درجہ کو نہيں پہنچ سکتا۔ ان کی نيکيوں کی رسيد عرش اعظم سے آچکی ہماری کسی نيکی کی قبوليت کی خبر نہيں۔(تفسير نورالعرفان)
Exit mobile version