حمد و مناجات
حمد و مناجات
ادب میں ’’حمد و مناجات‘‘ شاعر ی کی ایک صنف ہے۔ جس طرح شاعر ی میں نعت کا موضوع نبی کریمﷺ کی ذات مبارکہ کی مدح و توصیف ہے اسی طرح ’’حمد‘‘ اللہ جل شانہ کی ذات کی مدح و توصیف، ستائش، تحسین، تمجید اور شکر گزاری ہے۔ یہ اصطلاح شاعر ی ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے نثر میں بھی حمد کی جاتی ہے۔ زبان سے بھی حمد و ثنا بیان ہوتی ہے اور دل ہی دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کو یاد کرنا بھی ’’حمد‘‘ ہے۔
مناجات عربی لفظ نجویٰ سے مشتق ہے جس کی معنی سرگوشی کے ہیں۔ مناجات کا مفہوم سرگوشی میں اللہ سے دعا کرنا۔ اپنے دل کا حال بیان کرنا، اپنی ضرورت کے پورا ہونے کی آرزو کرنا اور اپنے لئے نجات اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا چاہنا ہے۔ شاعر ی میں مناجات کا مفہوم ’’دعائیہ نظم‘‘ ہے۔ جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات اور ضروریات کا ذکر کر کے اس کے پورا ہونے کی التجا کرتاہے۔الطاف حسین حالیؔ نے ایک بیوہ کی منظوم فریاد لکھی ہے اس کا نام ’’مناجات بیوہ‘‘ رکھا ہے۔
اردو شاعر ی میں نعت گوئی کے مقابلے میں حمد و مناجات کا رواج کم رہا ہے۔ اردو ادب میں نعتیہ شاعر ی کے بے شمار مجموعے دستیاب ہیں۔ نعت گوئی کی وجہ سے بعض شعرا مستقل طور پر نعت گو شعرا کہلاتے ہیں۔ قدیم و جدید نعتیہ شاعر ی کے مجموعے گلدستے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی کے منتخبات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مراٹھی شاعر سریش بھٹ کی مراٹھی نعت کے نہ صرف اردو منظوم تراجم شائع ہوئے بلکہ اس پر تجزیاتی مضامین بھی لکھے گئے۔ فن نعت گوئی پر کئی کتابی شائع ہوئیں۔ اس کی ابتدا، ارتقا، تعریف، موضوع، فضیلت، لوازمات اور شرائط وغیرہ کے تحت نعت گوئی پر ایک بہت بڑا اور کافی مواد موجود ہے۔ ہر تقریب میں تلاوت قرآن کے بعد مترنم آواز میں نعت خوانی کا عام رواج ہے۔ عربی مدارس کے اجلاس میں بھی تلاوت کے بعد بچوں سے نعت خوانی کروائی جاتی ہے۔ حمد کے لئے تلاوت قرآن ہی کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ نعت کی بہ نسبت حمد و مناجات کم تو کہی گئیں۔ اس موضوع پر بہت کم لکھا بھی گیا۔
نعت گوئی پر ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے ایک کتاب تحریر کی ہے۔ ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری نے ’’اردو شاعر ی میں نعت گوئی‘‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور مقالے کو دو جلدوں میں شائع بھی کیا ہے۔ نعت گوئی پر ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کی ایک کتاب پاکستان سے شائع ہے۔ انھوں نے حمد و مناجات پربھی بہت وقیع کام کیا ہے۔ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد کے دینی اور اصلاحی رسالہ کا بہت ضخیم ’’نعت النبیﷺ‘‘ نمبر شائع ہوا۔ اس میں حمد و مناجات پر بھی چند صفحات مختص کئے گئے ہیں۔
یہاں حمد و مناجات اور نعت گوئی کا تقابل نہیں ہے صرف یہ واضح کرنا ہے کہ نعتوں کی بہ نسبت شعرا نے حمدیں اور مناجاتیں کم کہیں ہیں۔ دراصل حضور ا کرمﷺ کی ذات مبارکہ سے شاعر کی عقیدت اور والا نہ جذبۂ محبت اس بات پر مجبور اور بے قرار کر دیتا ہے اور وہ حضورﷺ کی شان میں کچھ کئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ نعت کا میدان بہت وسیع ہے نعت کہنے میںبہت گنجائشیں ہی اس میں کئی طرح کے عنوانات اور پہلو نکلتے رہتے ہیں۔
’’حمد و مناجات‘‘ کا موضوع شاعر ی سے زیادہ مذہبی موضوع ہے۔ حمد کا تعلق اللہ جل شانہ کی ذات سے ہے اور اللہ نے اپنی حمد و ثنا کرنے کابندوں کو حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ ’’اے ایمان والو کثرت سے اللہ کا ذکر کرو۔ ‘‘ حضور ا کرم ﷺ اور آپ سے قبل جتنے بھی انبیاء اس دنیامیں تشریف لائے ان سب کی بعثت کا مقصد یید ہے کہ وہ اللہ کی عبادت اور اس کی حمد و ثنا کا پیغام بندوں تک پنہچائیں۔ فرمایا کہ ’’آپ اللہ کی بندگی اور اس کی حمد و ثنا کا پیغام بندوں تک پنچا ئیں۔ ‘‘ آپﷺ نے یہ پیغام بخوبی بندوں تک پنچاو دیا اور فرمایا کہ انسان کی زندگی کا مقصد خدا کی عبادت ہے اور خدا کی عبادت اس کی حمد و ثنا ہے۔ خود آپﷺ کی زندگی سراپا ’’حمد ‘‘ ہے۔ زندگی کا ایک ایک عمل، قول و فعل ’’حمد‘‘ ہے۔ اللہ کی مقدس کتاب قرآن کا آغاز بھی ’’حمد‘‘ ہے۔ اس کا اختتام بھی ’’حمد‘‘ ہے۔ کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ جس کے پڑھے بغیر اور جس کا اقرار کئے بغیر اور اس پر ایمان لائے بغیر کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا یہ کلمہ بھی ’’حمد‘‘ ہے۔ اس میں بندہ کا یہ اقرار کرنا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی پالنے والا، جلانے والا اور مارنے والا نہیں۔ وہی قدرت والا ہے، قوی ہے اور ہر چیز پر قادر ہے ہر چیز کا مالک ہے۔ یہ اقرار بھی خدا کی بڑائی اور اس کی حمد و ثنا
انسان کی زندگی کا کوئی عمل اور کوئی لمحہ حمد سے خالی نہیں۔ نماز، تلاوت قرآن، کھانا، پینا، سونا، جاگنا اگر سنت طریقے کے مطابق ہیں تو سب ’’حمد‘‘ ہے۔ سبحان اللہ، الحمد لللہ، ماشاء اللہ، اللہ اکبر اور اس طرح کے کلمات جو ہر مسلمان کی زبان پر رہتے ہیں ’’حمد‘‘ ہی ہیں۔ بندے کا کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتے وقت انشاء اللہ کہنا ’’حمد‘‘ ہے۔ بندہ اس وقت یہ اقرار کرتا ہے کہ میرے ارادہ سے کچھ نہیںہو گا۔ اللہ قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے گا تو یہ کام ہو جائے گا۔
اللہ نے عبادات کے لئے اوقات مقرر کر دئیے ہیں۔ ان اوقات می ان عبادات کو کیا جا سکتا ہے۔ ان کو ممنوع اوقات میں کرنا مکروہ ہے۔ لیکن حمد و ثنا اور ذکر اللہ کے لئے کوئی وقت مقرر نہیںکوئی پابندی نہیں، نہ وضو کی نہ پاکی کی۔ نا پاکی کی حالت میں بھی دل ہی دل میں اللہ کو یاد کر کے اس کی حمد و ثنا کی جا سکتی ہے۔ اس طرح ہر بندۂ مومن دن رات اللہ کی حمد و ثنا میں کسی نہ کسی طرح رطب اللسان رہتا ہے۔
مناجات میں بندہ کا تعلق اللہ سے ہوتا ہے۔ مانگنا، آہ و زاری کرنا، پچھتانا اور معافی مانگنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ اللہ نے بندوں کو معافی مانگنے کے لئے کہا ہے۔ اپنے جلال اور عزت کی قسم کھا کر کہا ہے کہ تم مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا۔ مجھ سے معافی چا ہو میں معاف کروں گا۔ گنا ہوں پر ندامت کے آنسو بہاؤ میں ستاری کروں گا اور گناہوں کو معاف کر دوں گا بلکہ انھیں نیکیوں سے مبدّل کر دوں گا
شاعر ی میں حمد و مناجات کے لئے کوئی مخصوص اسلوب اور آہنگ مقرر نہیں۔ غزل، نظم، مثلث، مسدس، ترجیع بند، ترکیب بند کسی بھی ہئیت میں کی جاتی ہے صرف جذبہ کی ضرورت ہے۔ حمد و ثنا لکھتے وقت شاعر کا دل پاک اور ذہن صاف ہو خدا کی بڑائی اور کبریائی کا اسے احساس ہو اور وہ جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو۔ نعت کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ نعت کا کہنا گویا تلوار کی دھار پر چلنے سے بھی زیادہ نازک ہے۔ حمد تو خالق کائنات کی حمد و ثنا بیان کرنا ہے اس کو بیان کرنے میں یہ دھار اور تیز ہو جاتی ہے۔ اللہ سے محبت کا دعویٰ ہو اس کی حمد و ثنا بھی بیان کی جا رہی ہو اور ساتھ ہی اس کی نافرمانی بھی جاری ہو تو دعویٰ جھوٹا اور کسی کام کا نہیں۔ دعویٰ کے ساتھ جذبۂ اطاعت و فرمانبرداری کا ہونا بھی ضروری ہے۔
مناجات نظم کرتے وقت عاجزی، انکساری، خاکساری اور تضرّع کا جذبہ کارفرما رہے۔ دل میں اللہ کی ہیبت و جلال اور اس کا خوف ہو۔ اسلوب بیان اور الفاظ سے مسکینی اور بے کسی کا اظہار ہو۔ شاعرانہ فنی خوبیوں کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ قرآن شریف میں وارد ہے کہ ’’اپنے رب کو عاجزی اور زاری سے پکارو‘‘ اس بات کا استحضار ہو کہ میرا رب میری بات کو سن رہا ہے۔ وہ میرے سامنے ہے۔ وہ بہت سخی ہے۔ اپنے بھکاریوں کو دھتکارتا نہیں اور نہ کسی کو محروم رکھتا ہے۔ حمد و مناجات لکھتے وقت شاعر کا دل تصنع اور ظاہرداری سے پاک ہو اور اخلاص، خشوع و خضوع اور دل سوزی سے سرشار ہو۔ اللہ سے عشق و محبت کے بے پناہ جذبات میں ڈوب کر دل کی گہرائیوں کے ساتھ حمد و مناجات لکھی جائیں کہ سننے اور پڑھنے والوں کی آتش شوق بھی بھڑک اٹھے۔
اردو شاعر ی میں قدیم و جدید شعرا کے حمدیہ و مناجاتی کلام سے چند شعرا کے منتخب اشعار درج کئے جاتے ہیں۔ قرآن مجید کی پہلی سورۃ سورۂ فاتحہ جسے سورۂ الحمد بھی کاکہا جاتا ہے۔ اس سورۃ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان ہوئی ہے۔ کئی شعرا نے اس کے منظوم تراجم کئے ہیں ان میں ایک ترجمہ کافی معروف اور مقبول ہوا ہے۔ ایک زمانے میں سرکاری اور غیر سرکاری مدارس میں اسکول شروع ہونے سے قبل یہ ’’حمد یہ نظم‘‘ سبھی بچے خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے اس کا پہلا شعر ہے :
تو رحم و کرم کا سرچشمہ ہے فیض ترا ہی لر اتا
خدایا میں تجھے اپنا خدا تسلیم کرتا ہوں
تہہ دل سے تجھے سب سے بڑا تسلیم کرتا ہوں
(انور صابری)
عظمت تری مانے بن کچھ بن نہیں آتی یہاں
ہیں خیرہ و سرکش بھی دم بھرتے سدا تیرا
ا(حالی)
آئینہ ہے لا و الّاِ حسنِ عالمگیر کا
ایک ہے دیکھو پلٹ کر دونوں رخ تصویر کا
(شاد عظیم آبادی)
یہ شمس و قمر یہ ارض و سما
سبحان اللہ سبحان اللہ
ہر رنگ میں تیرا ہے جلوہ
سبحان اللہ سبحان اللہ
(سیماب اکبرآبادی)
یاد کرنا ہر گھڑی تجھ یار کا
ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا
کروں پہلے کہ توحید یزداں رقم
جھکا جس کے سجدے کو اول قلم
یا رب ہے تیری ذات کو دونوں جہاں میں برتری
ہے یاد تیرے فضل کو رسم خلائق پروری
(نظیر اکبر آبادی)
ذوقؔ اسماء الٰہی ہیں سب اسم اعظم
اس کے ہر نام میں عظمت ہے نہ اک نام میں خاص
(ذوق)
اے خداوند مہ و مرظ و ثریا و شفق
لمعۂ نور سے ہے تیرے جاں کو رونق
(انشاء)
عاجز نواز دوسرا تجھ سا نہیں کوئی
رنجور کا انیس ہے ہمدم علیل کا
(آتش)
ہر چند ہر اک شے میں تو ہے
پر تجھ سی کوئی بھی شے نہیں ہے
(غالب)
وہ حافظ کہ آتش سے خس کو بچائے
تپ عشق سے بوالہوس کو بچائے
(مومن)
پتلی کی طرح نظر سے مستور ہے تو
آنکھیں جسے ڈھونڈتی ہیں وہ نور ہے تو
اقرب ہے رگ جاں سے اور اس پر یہ بعد
اللہ اللہ کس قدر دور ہے تو
(انیس)
قطرے کو گہر کی آبرو دیتا ہے
قد سرو کو گل کو رنگ و بو دیتا ہے
بیکار تشخص ہے، تصنع بے سود
عزت وہی عزت ہے جسے تو دیتا ہے
(دبیر)
امیرؔ ملتی ہیں بے مانگے نعمتیں کیا کیا
بڑا کریم ہے جس کا امیدوار ہوں میں
(امیر مینائی)
کونین جس کے ناز سے چکرا رہے ہیں داغؔ
میں ہوں نیاز مند اسی بے نیاز کا
(داغؔ)
ہم کیا کریں اگر نہ تیری آرزو کریں
دنیا میں اور بھی کوئی تیرے سوا ہے کیا
(حسرت موہانی)
پردہ نہ تھا وہ صرف نظر کا قصور تھا
دیکھا تو ذرے ذرے میں اس کا ظہور تھا
(جلیل مانک پوری)
تیری خبر نہیں ہے پر اتنی خبر تو ہے
تو ابتدا سے پہلے ہے تو انتار کے بعد
(جگر مراد آبادی)
خدایا نہیں کوئی تیرے سوا
اگر تو نہ ہوتا تو ہوتا ہی کیا
(اسمٰعیل میرٹھی)
مالک مرے بے نیاز ہے تو
مالک مرے کارساز ہے تو
(ریاض خیر آبادی)
جھک گیا تیرے آستاں پہ جو سر
پھر کسی آستاں پہ خم نہ ہوا
(فانی بدایونی)
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
(اقبال)
دعائے شام و سحر لا الہ الا اللہ
یہی ہے زاد سفر لا الہ الا اللہ
(ماہر القادری)
اے مالک ہر دو جہاں
ہم پر ہے کتنا مہرباں
(مرتضیٰ ساحل تسلیمی)
تو خدا ہے تیرے لائق کس طرح ہو تیری حمد
خالقِ کل مالکِ کل حاکمِ کل تیری ذات
(عروج قادری)
علاقۂ ودربھ کے شعرا کے کلام میں بھی حمد و مناجات کی مثالیں موجود ہیں۔ شاہ غلام حسین ایلچپوری (المتوفی ۱۷۹۵ء) ودربھ کے ایک صوفی شاعر گزرے ہیں ان کے کلام میں دکنی کا اثر نمایاں ہے۔ ان کی حمد کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
سدا ذات اللہ کوں ہے بقا
دسے ماسوی اللہ مطلق فنا
اب ودربھ کے چند کہنہ مشق شعرا کے منتخب اشعار دیکھئے :
ظاہر و پوشیدہ است ہر چہ اے خورشید زار
مظرو ذات خدا معرفت کردگار
(خورشید آراء بیگم)
ازل سے ابد تک زمانے ترے
مکاں لا مکاں ہے ٹھکانے ترے
(ڈاکٹر منشاء)
لئے ہوئے ہر اک آہنگ ساز کا تو ہے
جو گونجتی ہے تخیل میں وہ صدا تو ہے
(شارق جمال)
شعرائے ودربھ میں ڈاکٹر شرف الدین ساحل کا نام اسلام پسند شاعر کی حیثیت سے نمایاں ہے۔ اخلاقی، اسلامی اور تعمیری نظریات ان کی شاعر ی کے خاص عنصر ہیں۔ ’’حرا کی روشنی‘‘ میں انھوں نے ایام جاہلیت سے وفات نبیﷺ تک منظوم تاریخ بیان کی ہے۔ ڈاکٹر ساحل کے شعر ی مجموعوں میں ’’دست کوہکن‘‘ ، ’’شرار جستہ‘‘ ، ’’حرا کی روشنی‘‘ ، آئینہ سیما‘‘ ، ’’تازگی‘‘ اور ’’مقدس نعتیں ‘‘ شامل ہیں۔ شرار جستہ،آئینہ سیما اور تازگی میں حمدیہ و مناجاتی نظمیں ملتی ہیں جو ان کے مذہبی جذبات کی آئینہ دار ہیں۔ عنقریب حمد و مناجات کا مجموعہ بھی منظر عام آ رہا ہے۔ ان کے چند حمدیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
وجود اس کا ہے مشک و گلاب سے ظاہر
یہ جگمگاتے ہوئے ماہتاب سے ظاہر
ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون
بن گیا موتی اسے تابندگی دیتا ہے کون
ردائے ظلمتِ شب پل میں پھاڑ کر تو نے
نکالی گردشِ ایام کی سحر تو نے
واحد ہے، بے نیاز و بے اولاد و آل ہے
تو ربِ کائنات ہے اور ذوالجلال ہے
ڈاکٹر محبوب راہی کا شمار ودربھ کے ایسے شعرا میں ہے جن کی شاعر ی کی بنیاد اسلامی، اخلاقی اور صالح اقدار پر قائم ہے۔ مذہبی شعور و آگی اور ایمان کی حرارت ان کے کلام میں موجود ہے۔ انھوں نے حمد و مناجات پر خاص توجہ کی ہے۔ حمدوں،مناجاتوں، نعتوں، سلاموں، منقبتوں اور اسلامی و اصلاحی نظموں کے ان کے دو مجموعے ’’تری آواز مکے اور مدینے ‘‘ اور ’’سرمایۂ نجات‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں ۳۸حمدیں اور ۳۱ مناجاتیں ہیں۔ بچوں کے تین شعر ی مجموعے ’’رنگارنگ‘‘ ، ’’گل بوٹے ‘‘ اور ’’پھلواری‘‘ میں بھی آسان اور سہل زبان میں حمد و مناجات شامل ہیں۔ ان کا اس انداز کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں :
جا بجا سو بہ سو تو ہی تو چار سو
پھول سی مدھ بھری تیری بو چار سو
ودربھ کے موجودہ شعرا کے یہ چند اشعار بھی دیکھئے :
ہر چند نہیں آتا ہے آنکھوں سے نظر تو
انسانوں کی شہ رگ سے ہے نزدیک مگر تو
(لطیف یاور)
ہے انگبیں کا مزہ اس کے ورد میں جوہرؔ
کہیں نہ کس لئے ہم لا الہ الا اللہ
(راشد اللہ خاں جوہر)
خالق دو جہا ں پاک پروردگار
ہم گنہ گار دل کی تو سن لے پکار
(جملوا انصاری)
پیکر پیکر ترا ربی
عرفاں گھر گھر تیرا ربی
(عاجز ہنگن گھاٹی)
چل رہا ہوں خود کو اندھا جان کر
یا خدا روشن کوئی امکان کر
(شکیب غوثی)
تیری تلاش ہر سو، ہر سو ترے نظارے
ہر دل میں تیرا مسکن ہر دل تجھے پکارے
(فصیح اللہ نقیب)
اے خدا قابل تعریف ہے بیشک تری ذات
حاکموں کا ہے تو حاکم تیرے لمبے ہیں ہاتھ
(خلش تسکینی)
اٹھائے کب سے ہوں دست سوال دے اللہ
مجھے بھی اپنے ہنر میں کمال دے اللہ
(امین ببودوی)
نہ رنگ روپ نہ ظاہر جمال تیرا ہے
مگر سجود میں حسن خیال تیرا ہے
(امیر اللہ عنبر خلیقی)
حمد و ثنا اسی کی،جس نے جااں بنایا
مٹی میں جان ڈالی آرام جاں بنایا
(ڈاکٹر اسداللہ)
شعرا نے مناجات میں بھی طبع آزمائی کی ہے شعرائے اردو کے مناجاتی منتخب اشعار درج کئے جاتے ہیں۔ شیخ سعدی کی فارسی کی ایک مناجات بہت مقبول ہے۔ اکثر ائمہ حضرات فرض نماز کے بعد اس مناجات کو بلند آواز سے پڑھتے ہیں :
کریما بہ بخشائے بر حال ما
کہ ہستم اسیر کمند ھوا
ناگپور کے ایک قدیم شاعر عبد العلی عادل نے اس کا اردو منظوم ترجمہ کیا ہے۔ مولانا محمد ثانی حسنی نے بھی اس مناجات پر تضمین لکھی ہے۔ ایک بند ملاحظہ ہو:
الہی ہمارا تو ہی ہے خدا
تو حاجت روا اور مشکل کشا
نہیں کوئی معبود تیرے سوا
تو داتا ہے دیتا ہے صبح و مسا
کریما بہ بخشائے بر حال ما
کہ ہستم اسیر کمند ہوا
آغا حشر کاشمیری کی یہ مناجات بھی بہت مقبول اور معروف ہے اور اکثر مسلمانوںکے اور دینی مدارس کے اجلاس میں خوش الحافی سے پڑھی جاتی ہے :
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو! بٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے بھی ایک مناجات ’’شوق بے نوا‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے ایک بند دیکھئے
شوق ہے اس بے نوا کو آپ کے دیدار سے
ہو عنایت کیا عجب ہے آپ کی سرکار سے
کچھ نہیں مطلب دو عالم کے گل و گلزار سے
کر مشرف مجھ کو تو دیدار پر انوار سے
سرور عالم محمد مصطفی کے واسطے
عارف باللہ حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب ثاقب باندویؒ کی مناجات کا ایک شعر دیکھئے :
امڈ آئے ہیں سب اہل جفا اب با وفا ہو کر
غلام آئے ہیں آقا تیرے در پر بے نوا ہو کر
مولانا محمد ثانی حسنیؒ کی مناجات ’’الھی لاتعذنبی‘‘ کا ایک بند ملاحظہ کیجئے :
خداوندا میں سرتاپا خطا ہوں
اسیر پنجۂ حرص و ہوا ہوں
فقیر و خاکسار و بے نوا ہوں
برا ہوں پر ترے در کا گدا ہوں
الٰی لا تعذنبی فانی
مقر بالذی قدکاں منی
محبوب راہی کی مناجات کا چند شعر ملاحظہ فرمائیں :
نگاہ لطف و کرم ہو مجھ پر خدائے برتر خدائے برتر
کہ میں سراپا گناہ پیکر خدائے برتر خدائے برتر
مری نمازیں مری دعائیں دل شکستہ کی التجائی
قبولیت کا شرف عطا کر خدائے برتر خدائے برتر
متاع عقل و شعور دیدے مرے اندھیروں کو نور دیدے
مذاق فکرو نظر عطا کر خدائے برتر خدائے برتر
معاف کر دے گناہ اس کے نیں ہے پیروں میں راہ اس کے
لگا دے راہی کو راہ حق پر خدائے برتر خدائے برتر
ڈاکٹر ساحل کی مناجات کے ان اشعار پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں :
تو میری سوچ کے پودے کو اک شجر کر دے
دعا یہ ہے مرے لجے کو معتبر کر دے
صدف میں فکر و تخیل کے میں مقید ہوں
مثالِ قطرہ ہوں برسوں سے اب گرو کر دے
***