گو قریش کو معلوم ہی ہوچکا تھا کہ مدینہ سے فوجیں آرہی ہیں۔ مگر صورت حال کی تحقیق کے لئے قریش نے ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء کو اپنا جاسوس بناکر بھیجا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے حد فکرمند ہوکر قریش کے انجام پر افسوس کررہے تھے۔ وہ یہ سوچتے تھے کہ اگر رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اتنے عظیم لشکر کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آج قریش کا خاتمہ ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ رات کے وقت رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہوکر اس ارادہ سے مکہ چلے کہ قریش کو اس خطرہ سے آگاہ کرکے انہیں آمادہ کریں کہ چل کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معافی مانگ کر صلح کرلو ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ (1) (زرقانی ج ۲ص ۳۰۴)
مگر بخاری کی روایت میں ہے کہ قریش کو یہ خبر تو مل گئی تھی کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوگئے ہیں مگر انہیں یہ پتا نہ تھا کہ آپ کا لشکر ”مرالظہران” تک آگیا ہے۔ اس لئے ابوسفیان بن حرب اور حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء اس تلاش و جستجو میں نکلے تھے کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لشکر کہاں ہے؟ جب یہ تینوں ”مرالظہران” کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ میلوں تک آگ ہی آگ جل رہی ہے یہ منظر دیکھ کر یہ تینوں حیران رہ گئے اور ابوسفیان بن حرب نے کہا کہ میں نے تو زندگی میں کبھی اتنی دور تک پھیلی ہوئی آگ اس میدان میں جلتے ہوئے نہیں دیکھی۔ آخر یہ کون سا قبیلہ ہے؟بدیل بن ورقاء نے کہا کہ بنی عمرومعلوم ہوتے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ نہیں بنی عمرو اتنی کثیرتعداد میں کہاں ہیں جو ان کی آگ سے ”مرالظہران” کا پورا میدان بھر جائے گا۔(2) (بخاری ج۲ص ۶۱۳)
بہرحال حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان تینوں سے ملاقات ہوگئی اور ابوسفیان نے پوچھا کہ اے عباس!تم کہاں سے آرہے ہو؟ اوریہ آگ کیسی ہے؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لشکر کی آگ ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوسفیان بن حرب سے کہا کہ تم میرے خچر پر پیچھے سوار ہوجاؤ ورنہ اگر مسلمانوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ابھی تم کو قتل کرڈالیں گے۔ جب یہ لوگ لشکرگاہ میں پہنچے تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے چند مسلمانوں نے جو لشکرگاہ کا پہرہ دے رہے تھے۔ ابوسفیان کو دیکھ لیا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے جذبہ انتقام کو ضبط نہ کرسکے اور ابوسفیان کو دیکھتے ہی ان کی زبان سے نکلا کہ ”ارے یہ تو خدا کا دشمن ابوسفیان ہے۔” دوڑتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)ابوسفیان ہاتھ آگیا ہے۔ اگراجازت ہوتو ابھی اس کا سر اڑا دوں۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان تینوں مشرکوں کو ساتھ لئے ہوئے دربار رسول میں حاضر ہوگئے اور ان لوگوں کی جان بخشی کی سفارش پیش کردی اور یہ کہا کہ یارسول اللہ!(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے ان سبھوں کو امان دے دی ہے۔ (۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم سوم، باب ہفتم، فتح مکہ،ج۲، ص۲۸۱،۲۸۲
وشرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳، ص۴۱۸ مختصراً)